May 19, 2024

قرآن کریم > الحـديد >sorah 57 ayat 21

سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ

ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے پروردگار کی بخشش کی طرف اور اُس جنت کی طرف جس کی چوڑائی سارے آسمانوں اور زمین کی چوڑائی جیسی ہے، یہ اُن لوگوں کیلئے تیار کی گئی ہے جو اﷲ اور اُس کے رسولوں پر اِیمان لائے ہیں ۔ یہ اﷲ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے، دیتا ہے۔ اور اﷲ بڑے فضل والا ہے

آيت 21:  سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ:  «ايك دوسرے سے آگے بڑھنے كى كوشش كرو اپنے رب كى مغفرت اور اس جنت كى طرف جس كى وسعت آسمان اور زمين جيسى هے».

دنيا كمانے ميں تو تم لوگ خوب مسابقت كر رهے هو، اس ميدان تو تم هر وقت:  «هے جستجو كه خوب سے هے خوب تر كهاں!» كى فكر ميں لگے رهتے هو. عارضى دنيا كى اس مسابقت كو چھوڑو، اپنى يهى صلاحيتيں الله كى رضا اور جنت كے حصول كے ليے صرف كرو. اس هدف كو حاصل كرنے كے ليے محنت كرو اور اس منزل ميں بهتر سے بهتر مقام پانے كے ليے دوسروں سے آگے نكلنے كى كوشش كرو.

جنت كى وسعت كى مثال كے ليے يهاں (كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ) جبكه سوره آل عمران كى آيت: 133 ميں (عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضِ) كے الفاظ آئے هيں. موجوده دور ميں سائنس كى حيرت انگيز ترقى كے باوجود ابھى تك ارض وسما كى وسعت كے بارے ميں انسان كا علم نه هونے كے برابر هے. بهرحال اب تك ميسر هونے والى معلومات كے مطابق اس كائنات ميں ارب ها ارب كهكشائيں هيں، هر كهكشاں كى وسعت اور ايك كهكشاں سے دوسرى كهكشاں كے فاصلے كو كروڑوں نورى سالوں پر محيط تصور كيا گيا هے. اسى طرح هر كهكشاں ميں اَن گنت ستارے، همارے نظامِ شمسى (solar system) جيسے بے شمار نظام اور همارى زمين جيسے لا تعداد سيارے هيں. اسى طرح هر ستارے كى جسامت اور ايك ستارے سے دوسرے ستارے تك كے فاصلے كا اندازه بھى نورى سالوں ميں كيا جا سكتا هے. يهاں اس آيت ميں آسمان اور زمين كى وسعت سے مراد پورى كائنات كى وسعت هے جس كا اندازه كرنا انسان كے بس كى بات نهيں هے. بهرحال اس مثال سے جنت كى وسعت كے تصور كو انسانى ذهن كى سطح پر ممكن حد تك قابلِ فهم بنانا مقصود هے. اس حوالے سے ميرا گمان يه هے (والله اعلم!) كه قيامت برپا هونے كے بعد پهلى جنت اسى زمين پر بنے گى اور اهلِ جنت كى ابتدائى مهمانى (نُزُل) بھى يهيں پر هو گى. اس كے بعد اهلِ جنت كے درجات ومراتب كے مطابق ان كے ليے آسمانوں كے دروازے كھولے جائيں گے. اس حوالے سے سورة الاعراف كى اس آيت ميں واضح فرما ديا گيا هے: (إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ) الآية: 40. كه الله تعالى كى آيات كو جھٹلانے اور ان كے بارے ميں تكبر كرنے والوں كے ليے آسمان كے دروازے نهيں كھولے جائيں گے. بهرحال اس كے بعد اهل جنت كو ان كے مراتب كے مطابق اس جنت ميں منتقل كر ديا جائے گا جس كى وسعت كا يهاں ذكر هوا هے. اهل جنت كو وهاں جانے كے ليے كسى راكٹ وغيره كى ضرورت نهيں هو گى، بلكه الله تعالى انهيں اسى انداز سے آسمانوں پر لے جائے گا جيسے محمد رّسول الله صلى الله عليه وسلم سفر معراج ميں زمين سے ساتويں آسمان تك چلے گئے تھے اور حضرت جبرائيل عليه السلام ساتويں آسمان سے زمين پر آتے هيں.

أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ:  «وه تيار كى گئى هے ان لوگوں كے ليے جو ايمان لائے الله پر اور اُس كے رسولوں پر».

«اِعْدَاد» (باب افعال) كے معنى هيں: كسى خاص مقصد كے ليے كسى چيز كو تيار كرنا. يعنى وه جنت بڑے اهتمام سے تيار كى گئى هے، سجائى اور سنوارى گئى هے ان لوگوں كے ليے جو ايمان لائے الله پر اور اس كے رسولوں پر.

ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ:  «يه الله كا فضل هے جس كو بھى وه چاهے گا دے گا. اور الله بهت بڑے فضل والا هے».

«فضل» سے مراد هے الله تعالى كى طرف سے بغير استحقاق كے دى جانے والى شے. اس كے بالمقابل اجرت اور اجر كے الفاظ عام استعمال هوتے هيں، جن كا مطلب هے بدله، جو كسى محنت اور مزدورى كا نتيجه هوتا هے. ليكن قرآن مجيد ميں بالعموم جهاں بھى جنت كا تذكره آيا هے وهاں لفظ «فضل» استعمال هوا هے. گويا قرآن مجيد كا تصور يه هے كه انسان مجرد اپنے عمل كے ذريعے سے جنت كا مستحق نهيں بن سكتا جب تك كه الله تعالى كا فضل اس كى دست گيرى نه كرے.

اب اگلى آيت ميں دنيوى زندگى ميں پيش آنے والى تكاليف ومشكلات كو قابل برداشت بنانے كا نسخه بتايا جا رها هے. دراصل اهل ايمان كو جس راستے كى طرف بلايا جا رها هے وه بهت كھٹن اور صبر آزما راسته هے. يه انفاق، جهاد اور قتال كا راسته هے اور اس كى منزل «اقامت دين» هے، جس كا ذكر آيت: 25 ميں آرها هے. اس اعتبار سے آيت: 25 اس سورت كے ذروه سنام (climax) كا درجه ركھتى هے. بهرحال اهل ايمان جب اس راستے پر گامزن هوں گے تو آزمائشيں، صعوبتيں اور پريشانياں قدم قدم پر ان كے سامنے ركاوٹيں كھڑى كريں گى. يه الله تعالى كا اٹل قانون هے جس كا ذكر قرآن ميں بهت تكرار كے ساتھ آيا هے. سورة البقرة ميں ارشادِ ربّانى هے: (وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ). آيت: 155.  «اور هم تمهيں لازمًا آزمائيں گے كسى قدر خوف اور بھوك سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات كے نقصان سے». جبكه سوره آل عمران ميں اس قانون كا ذكر ان الفاظ ميں بيان هوا هے:  (لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا) (آيت: 186)

«(مسلمانو! ياد ركھو) تمهيں لازمًا آزمايا جائے گا تمهارے مالوں ميں بھى اور تمهارى جانوں ميں بھى، اور تمهيں لازمًا سننا پڑيں گى بڑى تكليف ده باتيں ان لوگوں سے بھى جنهيں تم سے پهلے كتاب دى گئى تھى اور ان سے بھى جنهوں نے شرك كيا». چنانچه مشكلات ومصائب كى اس متوقع يلغار كے دوران اهلِ ايمان كو سهارا دينے كے ليے يه نسخه بتايا جا رها هے:

UP
X
<>