May 19, 2024

قرآن کریم > الـطور >sorah 52 ayat 29

فَذَكِّرْ فَمَآ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّلَا مَجْنُوْنٍ 

لہٰذا (اے پیغمبر !) تم نصیحت کرتے رہو، کیونکہ تم اپنے پروردگار کے فضل سے نہ کاہن ہو، نہ مجنون

آيت 29:  فَذَكِّرْ فَمَا أَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ:  «تو (اے نبى) آپ تذكير كرتے رهيے، پس آپ اپنے رب كے فضل سے نه كاهن هيں اور نه مجنون».

يه خطاب اگرچه حضور سے هے ليكن اصل ميں سنانا ان لوگوں كو مقصود هے جو آپ كے ايسے نام ركھتے تھے، ان لوگوں كو نظر انداز كر كے حضور كو مخاطب كر كے فرمايا جا رها هے كه آپ ان كى فضول باتوں پر بالكل توجه نه ديں اور لوگوں كو مسلسل تذكير اور ياد دهانى كرتے رهيں. اس سے ملتا جلتا مضمون قبل ازيں گذشته سورت (الذاريات) ميں بھى آ چكا هے. وهاں فرمايا گيا تھا:

(فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَا أَنْتَ بِمَلُومٍ  وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ) {الذاريات: 54، 55}  «پس (اے نبى) آپ ان سے رخ پھير ليں، آپ پر كوئى ملامت نهيں. اور آپ تذكير كرتے رهيے، كيوں كه يه تذكير اهلِ ايمان كے ليے بهت فائده مند هے».

آپ تذكير وتبليغ كا عمل مسلسل جارى ركھيے، كيا خبر كسى كے دل ميں ايمان كى كوئى كَلى كھلنے والى هو، كيا خبر آپ كے كسى دشمن كا دل بھى موم هونے والا هو. حضرت عمر فاروق كے ايمان لانے كا واقعه اس حقيقت كا گواه هے كه تذكير آهسته آهسته دلوں كو متاثر كرتى رهتى هے اور پھر كسى وقت اچانك وه گھڑى آ پهنچتى هے جب دل ميں ايمان كى كلى كھل اٹھتى هے. حضرت عمر اگرچه حضور كى مخالفت ميں هر وقت پيش پيش رهتے تھے ليكن چونكه سخن شناس تھے اس ليے كلامِ الهى سننے كے ليے متجسس بھى رهتے تھے. روايات ميں آتا هے كه حضور رات كو صحنِ كعبه ميں قيام الليل كے دوران قرآن مجيد كى تلاوت فرمايا كرتے تو كبھى كبھى حضرت عمر چھپ كر حضور كى زبان مبارك سے تلاوت سنتے اور كلام الهى كى تاثير كو اپنى روح كى گهرائيوں ميں محسوس كرتے تھے. گويا حضور كى تذكير اور قرآن كى تاثير تدريجًا ان كے دل ميں گھر كر رهى تھى. اسى تدريجى عمل كے باعث آپ كے خيالات وجذبات ميں اندر هى اندر ايك مثبت تبديلى آنا شروع هوئى، اس كے بعد مشيتِ الهى سے وه واقعه رونما هوا جس كے باعث اس خاموش تبديلى كو اظهار كا موقع ملا اور آپ كو ايمان كى دولت نصيب هو گئى. اس دن تو آپ گھر سے حضور كو قتل كرنے كى نيت سے نكلے تھے، راستے ميں اپنى بهن فاطمه بنت خطاب اور اپنے بهنوئى حضرت سعيد بن زيد سے الجھ پڑے، آپ كے تشدد كا سامنا كرتے هوئے بهن نے جب ڈٹ كر كها كه عمر! تم جو چاهے كر لو، اب هم اپنے دين كو چھوڑنے والے نهيں! تو آپ اپنى بهن كے اس غير معمولى عزم اور حوصلے كے سامنے ڈھير هو گئے. پھر كيا تھا، آپ كے دل كا «بند» يك دم كھل گيا اور آپ نے حق كو اعلانيه قبول كر ليا.

UP
X
<>