May 3, 2024

قرآن کریم > الذاريات >sorah 51 ayat 56

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ

اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کیلئے پید انہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں

آيت 56:  وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ:  «اور ميں نے نهيں پيدا كيا جنّوں اور انسانوں كو مگر صرف اس ليے كه وه ميرى بندگى كريں».

شيخ سعدى نے اس مفهوم كى ترجمانى اس طرح كى هے:

زندگى آمد برائے بندگى        زندگى بے بندگى شرمندگى!

يه آيت اس لحاظ سے بهت اهم هے كه اس ميں تخليقِ انسانى كى غايت بيان كى گئى هے. كائنات كى تخليق كے حوالے سے عام طور پر ايك سوال يه كيا جاتا هے كه الله تعالى كے نزديك اس تخليق كا سبب كيا هے؟ يه ايك مشكل اور پيچيده سوال هے جس كے جواب ميں هر زمانے كے فلاسفر اور حكما نے اپنى اپنى آراء دى هيں، يه ان تفاصيل ميں جانے كا موقع نهيں. ايك عام شخص كے ليے تخليقِ كائنات كے سبب كے بارے ميں آگاهى حاصل كرنا ضرورى نهيں اور اس لا علمى كى وجه سے اسے كوئى نقصان پهنچنے كا انديشه بھى نهيں. البته اپنى تخليق كى غرض وغايت كے بارے ميں جاننا هر انسان كے ليے ضرورى هے. اگر انسان كو اپنى غايتِ تخليق هى كا علم نهيں هو گا تو گويا اس كى سارى زندگى رائيگاں جائے گى. چنانچه اس آيت ميں بنى نوع انسان كو ان كى غايتِ تخليق واضح طور پر بتا دى گئى هے كه تمهيں الله تعالى نے اپنى «بندگى» كے ليے پيدا كيا هے.

بندگى يا عبادت كے بارے ميں قبل ازيں بھى ميں نے كئى مرتبه وضاحت كى هے كه اس كے تين حصے هيں: اوّلا همه تن اطاعت، ثانيًا اطاعت كى روح يعنى الله تعالى كى غايت درجے كى محبت. عبادت اصلًا ان دو چيزوں كے مجموعے كا نام هے (اَلْعِبَادَةُ تَجْمَعُ اَصْلَيْنِ: غَايَةَالْحُبِّ مَعَ غَايَةِ الذُّلِّ وَالْخُضُوْعِ). جبكه تيسرى چيز مراسمِ عبوديت هے، جس كى حيثيت عبادت كے ظاهر يا جسم كى هے. مثلًا الله كے سامنے عاجزى كى حالت (قنوت) ميں كھڑے هونا (قيام)، ركوع، سجده، حمديه كلمات ادا كرنا، نماز وغيره مراسم عبوديت هيں اور ان كى اپنى اهميت هے. اگر هم عبادت كى اس تعريف (الله تعالى كى همه تن اطاعت) كى روشنى ميں آج اپنى حالت كا جائزه ليں تو يه تلخ حقيقت واضح هو گى كه هم ميں سے جو لوگ اپنے زعم ميں شب وروز پابندى كے ساتھ الله كى عبادت پر كمر بسته هيں وه بھى زياده سے زياده دس يا پندره فيصد تك الله تعالى كى اطاعت كر رهے هيں. اس كا واضح تر مطلب يه هے كه همارى زندگيوں كا غالب تر حصه الله سبحانه وتعالى كى اطاعت سے نكلا هوا هے. اس كى وجه يه هے كه هم جس معاشرے ميں ره رهے هيں اس پر كافرانه نظام كا غلبه هے اور اس نظام كے تحت رهتے هوئے الله تعالى كى همه تن اطاعت ممكن هى نهيں. ان حالات ميں هم الله تعالى كى اطاعت يا عبادت كے تقاضوں سے كيسے عهده برآ هو سكتے هيں؟ اس سوال كا جواب جاننے كے خواهش مند حضرات اس موضوع پر ميرى كتب اور تقارير سے استفاده كر سكتے هيں.

آيت زير مطالعه كے حوالے سے يهاں پر مختصرًا يه سمجھ ليں كه مادى وعلمى لحاظ سے انسان جس قدر چاهے ترقى كر لے اگر وه اپنى زندگى كو الله تعالى كى اطاعت يا بندگى كے قالب ميں ڈھالنے سے قاصر رها تو انسانى سطح پر اس كى سارى زندگى بے كار اور رائيگاں هے. علامه اقبال نے اپنے ان اشعار ميں انسان كى اسى ناكامى كى طرف اشاره كيا هے:

ڈھونڈنے والا ستاروں كى گزرگاهوں كا

اپنے افكار كى دنيا ميں سفر كر نه سكا

جس نے سورج كى شعاعوں كو گرفتار كيا

زندگى  كى  شبِ تاريك  سحر كر نه سكا!

UP
X
<>