May 6, 2024

قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 2

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللَّهِ وَلاَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلاَ الْهَدْيَ وَلاَ الْقَلآئِدَ وَلا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُواْ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُواْ وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ 

اے ایمان والو ! نہ اﷲ کی نشانیوں کی بے حرمتی کرو، نہ حرمت والے مہینے کی، نہ ان جانوروں کی جو قربانی کیلئے حرم لے جائے جائیں ، نہ ان پٹوں کی جو ان کے گلے میں پڑے ہوں ، اور نہ ان لوگوں کی جو اﷲ کا فضل اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کی خاطر بیت حرام کا ارادہ لے کر جارہے ہوں۔ اور جب تم احرام کھول دو تو شکار کر سکتے ہو۔ اور کسی قوم کے ساتھ تمہاری یہ دشمنی کہ انہوں نے تمہیں مسجدِ حرام سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم (ان پر) زیادتی کرنے لگو۔ اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ کا عذاب بڑا سخت ہے

آیت 2:   یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُحِلُّــوْا شَعَـآئِرَ اللّٰہِ وَلاَ الشَّہْرَ الْحَرَامَ:   ،، اے اہل ِایمان! مت بے حرمتی کرو اللہ کے شعائر کی اور نہ ُحرمت والے مہینے کی،،

             یعنی اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو اپنی خواہش کے مطابق حلال مت کرلیا کرو۔

             وَلاَ الْہَدْیَ:  ،، اور نہ ہدی کے جانوروں کی (بے حرمتی کرو) ،،

             یعنی قربانی کے وہ جانور جو حج یا عمرے پر جاتے ہوئے لوگ ساتھ لے کر جاتے تھے۔  عربوں کے ہاں رواج تھا کہ وہ حج یا عمرے پر جاتے وقت قربانی کے جانور ساتھ لے کر جاتے تھے۔ یہاں ان جانوروں کی بے حرمتی کی ممانعت بیان ہو رہی ہے۔

             وَلاَ الْـقَـلَآئِدَ:  ،، اور نہ (اُن جانوروں کی بے حرمتی ہونے پائے)  جن کی گردنوں میں پٹے ڈال دیے گئے ہوں،،

            یہ پٹے (قلادے)  علامت کے طور پر ڈال دیے جاتے تھے کہ یہ قربانی کے جانور ہیں اور کعبے کی طرف جا رہے ہیں۔

             وَلَآ آٰمِّـیْـنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ:  ،، اور نہ عازمین ِبیت الحرام (کی عزت و احترام میں فرق آئے)،،    ّ

             یعنی وہ لوگ جو بیت الحرام کی طرف چل پڑے ہوں،  حج یا عمرے کا قصد کر کے سفر کر رہے ہوں،  اب ان کی بھی اللہ کے گھر کے ساتھ ایک نسبت ہو گئی ہے،  وہ اللہ کے گھر کے مسافر ہیں،  جیسا کہ اہل ِعرب حجاجِ کرام کو کہتے ہیں: مَرْحَبًا بِضُیُوْفِ الرَّحْمٰن  ،،مرحبا ان لوگوں کو جو رحمن کے مہمان ہیں،، ۔ یعنی تمام ُحجاجِ ّکرام اصل میں اللہ کے مہمان ہیں، اللہ ان تمام ِزائرین کعبہ کا میزبان ہے۔ تو اللہ کے ان تمام مہمانوں کی ہتک ِعزت اور بے حرمتی سے منع کر دیا گیا۔

             یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرِضْوَانًا:   ،،  وہ طلب گار ہیں اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کے۔،،  

             یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں،  اللہ کو راضی کرنے کی کوشش میں مکانِ محترم (کعبہ)  کی طرف جا رہے ہیں۔

             وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا:  ،، ہاں جب تم حلال ہو جاؤ (احرام کھول دو)  تو پھر تم شکار کرو۔،،

            حلال ہو جانا ایک اصطلاح ہے، یعنی احرام کھول دینا،  حالت ِاحرام سے باہر آ جانا۔ اب تمہیں شکار کی آزادی ہے،  اس پر پابندی صرف احرام کی حالت میں تھی۔

             وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ:  ،،اورتمہیں آمادہ نہ کر دے کسی قوم کی دشمنی،،

             اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: ،، کہ انہوں نے روکے رکھا تمہیں مسجد ِحرام سے،،

             اَنْ تَعْتَدُوْا:  ،، کہ (تم بھی ان پر)  زیادتی کرنے لگو۔،،

            یعنی جیسے اہل ِمکہ نے تم لوگوں کو چھ سات برس تک حج و عمرہ سے روکے رکھا،  اب کہیں اس کے جواب میں تم لوگ بھی ان پر زیادتی نہ کرنا۔

             وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوى:  ،، اور تم نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو،،  

             وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ:  ،، اور گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو،،

             وَاتَّـقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ: ،،  اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو،  یقینا اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بہت سخت ہے ۔،،

             دیکھئے یہ انداز بالکل وہی ہے جو سورۃ النساء کا تھا،  وہی معاشرتی معاملات اوران کے بارے میں بنیادی اصول بیان ہو رہے ہیں۔ 

UP
X
<>