May 6, 2024

قرآن کریم > الحُـجُـرات >sorah 49 ayat 14

قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

یہ دیہاتی کہتے ہیں کہ : ’’ ہم ایمان لے آئے ہیں ۔‘‘ ان سے کہو کہ :’’ تم ایمان تو نہیں لائے، البتہ یہ کہوکہ ہم نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں ۔ اور اِیمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اور اگر تم واقعی اﷲ اور اُس کے رسول کی اطاعت کروگے تو اﷲ تمہارے اعمال (کے ثواب) میں ذرابھی کمی نہیں کرے گا۔ یقینا اﷲ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔‘‘

آیت ۱۴  قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا:  ’’یہ بدو کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔‘‘

           قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا:  ’’(اے نبی ان سے) کہہ دیجیے: تم ہر گز ایمان نہیں لائے ہو‘ بلکہ تم یوں کہو کہ ہم مسلمان (اطاعت گزار) ہو گئے ہیں‘‘

          ’’لَمْ تُـؤْمِنُوْا‘‘ میں نفی جحد بِلَمْ کا نہایت مؤکد اسلوب ہے‘ یعنی یہاں مضارع سے پہلے لَمْ تاکیدی نفی کے لیے آیا ہے۔ چنانچہ ’’لَمْ تُؤْمِنُوْا‘‘ میں جو خاص تاکید پائی جاتی ہے وہ ’’مَـا آمَنْتُمْ‘‘ جیسے الفاظ میں نہیں۔

           وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ:  ’’اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔‘‘

          اس آیت میں جو نکتہ بیان ہوا ہے وہ اسلامی معاشرے کی رکنیت اور اسلامی ریاست کی شہریت کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ایمان دراصل ایک نظریے کا نام ہے جو دل کے اندر چھپا ہوتا ہے۔ دنیا میں کسی بھی طریقے یا ذریعے سے کسی شخص کے ایمان کی تصدیق یا تردید نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اسلامی معاشرے کے افراد یا اسلامی ریاست کے شہریوں کی قانونی حیثیت کا تعین ’’اسلام‘‘ کی بنیاد د پر ہوگا نہ کہ ’’ایمان‘‘ کی بنیاد پر۔ البتہ آخرت میں اللہ کے ہاں ہر شخص کے معاملات کا فیصلہ ایمان کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ چنانچہ ہمارے ہاں مردم شماری کے فارم کے اندر مذہب کے خانے میں کسی کے لیے ’’مسلم‘‘ کا لفظ لکھ دینے سے متعلقہ شخص کو قانونی طور پر تو مسلمان تسلیم کر لیا جائے گا لیکن دنیا میں قانونی طور پر مسلمان بن جانے سے اللہ کے ہاں چھوٹ نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ تو ہر شخص کے دل میں ایمان کی کیفیت کو دیکھے اور پرکھے گا۔ جیسا کہ حضور کا فرمان ہے: ((اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَـنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ))  ’’اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا‘ بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے‘‘۔ چنانچہ دُنیوی قانون کے تقاضوں اور نجاتِ اُخروی کے حوالے سے ایمان اور اسلام کے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

           وَاِنْ تُطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَا یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَیْئًا:  ’’لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو گے تو وہ تمہارے اعمال میں سے کوئی کمی نہیں کرے گا۔‘‘

           اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ:  ’’یقینا اللہ بہت بخشنے والا‘ بہت مہربان ہے۔‘‘

          اگرچہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق اعمال کا دار ومدار ایمان پر ہے‘ یعنی جب تک کسی کے دل میں ایمان نہیں اللہ کے ہاں اس کا کوئی عمل قابل قبول نہیں‘ لیکن اللہ تعالیٰ غفورٌ رحیم ہے‘ اس نے اپنی شانِ غفاری ورحیمی کے طفیل تم لوگوں کو خصوصی رعایت عطا کی ہے‘ چنانچہ اگرچہ تم نے ایمان کا ابھی صرف زبانی اقرار ہی کیا ہے اور یہ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں راسخ نہیں ہوا‘ پھر بھی اس اقرار کے بعد اگر تم لوگ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو شرفِ قبولیت بخشتا رہے گا۔ اس حوالے سے یہ اہم قانونی اور اصولی نکتہ ضرور مدنظر رہنا چاہیے کہ یہاں جس اطاعت کا ذکر ہے اس سے مراد کلی اطاعت ہے۔ کیونکہ اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً ( البقرۃ: ۲۰۸) کے واضح حکم کے بعد اسلام میں جزوی داخلہ اور اللہ تعالیٰ کی جزوی اطاعت قابل قبول ہی نہیں۔

           آیت زیر مطالعہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں ایمان کو اسلام سے علیحدہ کر دیا گیا ہے اور یہ قرآن مجید کا واحد مقام ہے جہاں مسلمانوں کے ایک گروہ کو واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ تا حال ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اس سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ بھی ہوا کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے‘ حالانکہ اس بارے میں سب کا اتفاق ہے کہ منافقین کا تو کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں‘ جبکہ یہاں متعلقہ لوگوں کو یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ اگر تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو گے تو تمہارے اعمال میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ اس حکم کا درست مفہوم سمجھنے کے لیے ان حالات کے بارے میں جاننا ضروری ہے جن حالات میں یہ آیت نازل ہوئی ۔

          جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جزیرۃ العرب میں غلبہ عطا فرما دیا تو کفار و مشرکین کے تمام قبائل پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اب ان میں مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہی۔ دوسری طرف سورۃ التوبہ کی ابتدائی آیات میں ان کے لیے یہ الٹی میٹم بھی نازل ہو چکا تھا:  فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ (آیت: ۵) ’’اور جب یہ محترم مہینے گزر جائیں تو قتل کرو ان مشرکین کو جہاں پاؤ‘ اور پکڑو ان کو‘ اور گھیراؤ کرو ان کا‘ اور ان کے لیے ہر جگہ گھات لگا کر بیٹھو‘‘۔ ۹ ہجری کے حج کے موقع پر یہ الٹی میٹم ہر خاص و عام تک پہنچا بھی دیا گیا تھا۔ اس کے بعد متعلقہ لوگوں کے پاس صرف چار ماہ کا وقت تھا۔ ان حالات میں ان قبائل کے پاس اطاعت قبول کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ بچا ہی نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے یہی راستہ اپنایا اور حضور کی اطاعت قبول کرنے کے لیے آپ کی خدمت میں اپنے اپنے وفد بھیجنے شروع کر دیے۔ اس طرح اس سال مدینہ میں وفود کا تانتا بندھ گیا۔ گویا ہر قبیلہ اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کرنے اور اسلام میں داخل ہونے کے لیے دوسروں پر سبقت لے جانا چاہتا تھا۔ اس صورت حال کا نقشہ سورۃ النصر میں یوں دکھایا گیا ہے:  اِذَاجَآءَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ  وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا.

          اطاعت قبول کرنے والے ان لوگوں میں تین طرح کے افراد تھے۔ کچھ تو ظاہر ہے خلوصِ نیت سے ایمان لانے والے تھے اور کچھ منافق اور دھوکہ باز جو ہوا کا رخ دیکھ کراپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرنے پر مجبور تھے۔ لیکن ان دو اقسام کے درمیان تیسری قسم کے کچھ لوگ بھی تھے‘ جن کے دلوں میں نہ تو دھوکے کی نیت تھی اور نہ ہی ایمان لانے کا سچا جذبہ تھا۔ یعنی وہ مثبت اور منفی دو انتہائوں کے درمیان ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر کھڑے تھے۔ آیت زیر مطالعہ میں دراصل ان ہی لوگوں کا ذکر ہے۔ ان لوگوں کو نہ صرف اطمینان دلایا گیا کہ اگر تم لوگ اللہ اور اس کے رسول  کی اطاعت کرتے رہو گے تو تمہارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی‘ بلکہ آگے آیت ۱۷ میں انہیں خوشخبری بھی سنا دی گئی کہ اگر تم خلوصِ دل سے اطاعت کے اس راستے پر چلتے رہو گے تو تمہارے دلوں میں سچا اور حقیقی ایمان بھی پیدا ہو جائے گا۔

          دراصل ایمانِ حقیقی اور عمل صالح باہم لازم و ملزوم ہیں۔ ایک طرف دل میں ایمانِ حقیقی کی موجودگی اگر اعمالِ صالحہ کے صدور کا باعث بنتی ہے تو دوسری طرف اعمالِ صالحہ کی مداومت بھی ایمان کی تقویت کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔لیکن واضح رہے کہ اس حوالے سے ٹھوس نتائج کے لیے دل میں مضبوط ارادے اور نیت کا موجود ہونا نا گزیر ہے۔ یعنی دل میں پختہ نیت ہو کہ مجھے ایک سچا اور پکا مؤمن بننا ہے‘ مؤمن بن کر جینا ہے اور مؤمن کی حیثیت سے اس دنیا سے کوچ کرنا ہے۔ لیکن اس ضمن میں اس تلخ حقیقت کو بھی تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ آج کل کے ماحول میں اول تو ایسی نیت یا آرزو کا دل میں پیدا ہونا ہی مشکل ہے‘ اور اگر کسی دل میں یہ آرزو پیدا ہو ہی جائے تو اس کا زندہ رہنا محال ہے۔ کیونکہ آج کا معاشرہ اور خارج کا موجودہ ماحول ایسی مثبت سوچ کو غذا فراہم نہیں کرتا اور ظاہر ہے جس ماحول میں آکسیجن نہیں ہو گی وہاں کوئی متنفس کیسے زندہ رہ سکے گا۔ اقبال نے اس صورت حال کو اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے:    

آرزو  اول  تو پیدا  ہو نہیں  سکتی کہیں

ہو کہیں پیدا تو مرجاتی ہے یا رہتی ہے خام!

          بلکہ ہمارا موجودہ معاشرہ تو اس حوالے سے منفی کردار کے لیے غیر معمولی طور پر حساس اور فعال ہے۔ ایسی کوئی آرزو کسی دل میں ابھی پوری طرح آنکھیں بھی نہیں کھولنے پاتی کہ ماحول کی تمام منفی قوتین اپنے اپنے ہتھیار سجا کر اس جانِ ناتواں کے محاصرے کے لیے پہنچ جاتی ہیں۔ اس میں سب سے مؤثر کردار ’’اپنوں‘‘ کی ایسی نصیحتوں کا ہوتا ہے کہ دیکھو اپنے گھر بار کی بھی کچھ فکر کرو! کیوں تم اپنا بنا بنایا کیرئیر تباہ کرنے پر تُل گئے ہو؟ کیا تمہیں اپنے مستقبل اور اپنے بیوی بچوں کا بھی خیال نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس دباؤ کا فطری اور منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ ’’نوزائیدہ آرزو‘‘ لمحہ بہ لمحہ کمزور ہونے لگتی ہے اور بالآخر سسک سسک کر دم توڑ جاتی ہے‘ اِلا یہ کہ کسی کے ارادے میں غیر معمولی خلوص و استقامت ہو اور اللہ کی خصوصی توفیق و نصرت بھی اس کے شامل حال ہو۔

          بہر حال آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے یہ بحث تو اسلام اور ایمان کے فرق سے متعلق تھی۔ لیکن اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ حقیقی مومن کسے کہتے ہیں تو وہ ’’مؤمن‘‘ کی اس تعریف (definition) کو اپنے پیش نظر رکھے جو اگلی آیت میں بیان کی گئی ہے۔ (اس مضمون کی وضاحت قبل ازیں سورۃ الانفال کی آیات ۲‘ ۳ اور ۷۴ کے ضمن میں بھی کی جا چکی ہے۔)

UP
X
<>