April 19, 2024

قرآن کریم > الحُـجُـرات >sorah 49 ayat 1

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

اے ایمان والو ! اﷲ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھا کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ اﷲ یقینا سب کچھ سنتا، سب کچھ جانتا ہے

آیت ۱ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ: ’’اے اہل ِایمان مت آگے بڑھو اللہ اور اُس کے رسول سے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔یقینا اللہ سب کچھ سننے والا‘ سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘

            یہ آیت گویا اسلامی ریاست کے آئین کی بنیاد ہے۔ اسلامی ریاست کے آئین کی پہلی شق یہ ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے اور اقتدارِ مطلق کامالک صرف اکیلا وہ ہے۔ اس نظری و اعتقادی حقیقت کی تعمیل و تنفیذ کا طریقہ اس آیت میں بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول نے جو حدود قائم کر دی ہیں ان حدود سے کسی بھی معاملے میں تجاوز نہیں ہو گا۔ اس آیت کے مفہوم کو پاکستان کے ہردستور میں ان الفاظ کے ساتھ شامل رکھا گیا ہے:  No Legislation will be done repugnant to the Quran and the Sunnah۔ یہ شق گویا اسلامی ریاست کے آئین کے لیے اصل الاصول کا درجہ رکھتی ہے۔ چنانچہ آئین پاکستان میں اس شق کے شامل ہونے سے اصولی طور پر تو پاکستان ایک اسلامی ریاست بن گیا‘ لیکن عملی طور پر اس ’’ذمہ داری‘‘ سے جان چھڑانے کے لیے کمال یہ دکھایا گیا کہ ان الفاظ کے ساتھ ایک ہاتھ سے آئین کے اندر اسلام داخل کر کے دوسرے ہاتھ سے نکال لیا گیا ۔ آئین پاکستان کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کے مقصد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل (Islamic Ideological Council) تشکیل دی گئی اور اسے بظاہر یہ اہم اور مقدس فریضہ سونپا گیا کہ وہ پارلیمنٹ کی ’’قانون سازی‘‘ پر گہری نظر رکھے گی اور اس ضمن میں کسی کوتاہی اور غلطی کی صورت میں حکومت کو رپورٹ پیش کرے گی۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک تھا ‘لیکن اس میں منافقت یہ برتی گئی کہ آئین کی رو سے حکومت کو نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کرنے کا پابند نہیں کیا گیا۔ چنانچہ کونسل نے اقتصادیات اور غیر سودی بینکاری کے حوالے سے بہت مفید سفارشات مرتب کی ہیں۔ بہت سے دوسرے معاملات میں بھی تحقیقاتی رپوٹیں حکومتوں کو بھجوائی ہیں۔ کونسل کی سفارشات جمع ہوتے ہوتے الماریاں بھر گئیں‘ لیکن کسی حکومت نے ان میں سے کسی ایک سفارش کو بھی تنفیذ کے حوالے سے لائق اعتناء نہ سمجھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کونسل کی تمام تحقیقات اور سفارشات کلی طور پر لاحاصل مشق (exercise in futility) ثابت ہوئیں۔

            بہر حال زیر مطالعہ آیت کی رو سے جب کسی ریاست کے آئین میں مذکورہ شق شامل کر لی جائے گی تو اصولی طور پر وہ ریاست اسلامی ریاست بن جائے گی۔ اس کے بعد اس ریاست کے قانون ساز ادارے کو چاہے پارلیمنٹ کہیں‘ مجلس ملی کہیں یا کانگرس کا نام دیں‘ اس کی قانون سازی کا دائرہ اختیار (legislative authority) قرآن وسنت کی بالادستی کے باعث محدود ہو جائے گا۔ یعنی اس ’’قدغن‘‘ کے بعد وہ مقننہ اپنے ملک کے لیے صرف قرآن و سنت کے دائرے کے اندر رہ کر ہی قانون سازی کر سکے گی۔اس دائرے کے اندر جو قانون سازی کی جائے گی وہ جائز اور مباح ہو گی اور اس دائرے کی حدود سے متجاوز ہوتا ہوا کوئی بھی قانون ناجائز اور ممنوع قرار پائے گا‘ چاہے اس قانون کو مقننہ کے تمام ارکان ہی کی حمایت حاصل کیوں نہ ہو۔ اسلامی مقننہ کی اس ’’محدودیت‘‘ کو اس مثال سے سمجھیں کہ کسی دعوت میں بلائے گئے مہمانوں کی تواضع روح افزا شربت سے کی جائے‘ سیون اَپ سے یا دودھ سوڈا وغیرہ سے‘ اس بارے میں فیصلہ تو کثرتِ رائے سے کیا جا سکتا ہے‘ لیکن

تمام میزبان اپنے سو فیصد ووٹوں سے بھی مہمانوں کو کوئی ایسا مشروب پلانے کافیصلہ نہیں کر سکتے جس کا پینا قرآن و سنت میں ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ اس نکتے کو رسول اللہ نے اس مثال کے ذریعے نہایت عمدگی سے واضح فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا: ((مَثَلُ الْمُؤْمِنِ وَمَثَلُ الْاِیْمَانِ کَمَثَلِ الْفَرَسِ فِیْ آخِیَّتِہٖ، یَجُوْلُ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی آخِیَّتِہٖ …)) یعنی ’’مؤمن کی مثال اور ایمان کی مثال اُس گھوڑے کی سی ہے جو اپنے کھونٹے کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ وہ گھومنے پھرنے کے بعد پھر اپنے کھونٹے پر واپس لوٹ آتا ہے…‘‘ ظاہر ہے مؤمن تو وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے اور ان کے احکام کو مانتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ اوراس کے رسول کے احکام کے کھونٹے سے بندھ چکا ہے ‘اب وہ اس کھونٹے کے گردا گرد ایک دائرے میں اپنی مرضی سے چرچگ ُسکتا ہے ‘لیکن اس دائرے کی حدود کا تعین اس کھونٹے کی رسی (حدود اللہ) کے اندر موجود گنجائش کی بنیاد پر ہی ہو گا۔اس کے برعکس ایک وہ شخص ہے جو مادر پدر آزاد ہے۔ وہ نہ اللہ کو مانتا ہے‘ نہ رسول کو جانتا ہے اور نہ ہی ان کے احکام کو پہچانتا ہے‘وہ اپنی مرضی کا مالک ہے‘ جو چاہے کرے اور جس چیز کو چاہے اپنے لیے ’’جائز‘‘ قرار دے لے۔ چنانچہ ایسے افراد اگر کسی ملک یا ریاست کے قانون ساز ادارے میں بیٹھے ہوں گے تو وہ کثرتِ رائے سے اپنی ریاست اور قوم کے لیے جو قانون چاہیں منظور کر لیں۔ وہ چاہیں تو ہم جنس پرستی کو جائز قرار دے دیں اور چاہیں تو مردکی مرد سے شادی کو قانونی حیثیت دے دیں۔

            اب اس کے بعد جو چار آیات آ رہی ہیں وہ اہل ایمان پر اللہ کے رسول کے حقوق کا تعین کرتی ہیں۔ حضور کی تعظیم‘ آپ کی محبت اور آپ کے اتباع کا جذبہ گویا ایک مسلمان معاشرے کی تہذیب اور اس کے تمدن کی بنیاد ہے۔ اس بارے میں ایک عمومی حکم {وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ} ہم سورۃ الفتح میں پڑھ آئے ہیں۔ اس حکم کی شرح گویا اب اگلی آیات میں بیان ہو رہی ہے۔

UP
X
<>