May 4, 2024

قرآن کریم > الأحقاف >sorah 46 ayat 3

مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلاَّ بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى وَالَّذِينَ كَفَرُوا عَمَّا أُنذِرُوا مُعْرِضُونَ

ہم نے آسمانوں اور زمین کو کسی برحق مقصد کے بغیر اور کسی متعین میعاد کے بغیر پیدا نہیں کر دیا ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر اَپنا لیا ہے، وہ اُس چیز سے منہ موڑے ہوئے ہیں جس سے اُنہیں خبردار کیا گیا ہے

آیت ۳  مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ: ’’اور ہم نے نہیں پید اکیا آسمانوں اور زمین کواور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے مگر حق کے ساتھ

          یہ ایک مستحکم نظام اور ایک با مقصد تخلیق ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ سورۃ الدخان میں اس بارے میں یوں فرمایا گیا ہے: وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ l: ’’اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے مابین ہے محض کھیل کے طور پر تو تخلیق نہیں فرمایا۔‘‘

          وَاَجَلٍ مُّسَمًّی: ’’اور ایک اجل معین کے لیے ‘‘

          وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَمَّآ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ: ’’اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ اعراض    کر رہے ہیں اس سے جس سے انہیں خبردار کیا جا رہا ہے۔‘‘

          اس جملے میں الفاظ کی ترتیب دراصل یوں ہے:  وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا مُعْرِضُوْنَ  عَمَّآ اُنْذِرُوْا ۔ لیکن ایک مخصوص صوتی آہنگ (rhythm) برقرار رکھنے کے لیے یہاں الفاظ میں تقدیم و تاخیر کی گئی ہے۔ میں ’’تعارفِ قرآن ‘‘پر اپنے لیکچر زمیں قرآن کے صوتی آہنگ پر گفتگو کرتے ہوئے یہ وضاحت کر چکا ہوں کہ ہم معروف معنوں میں جسے شاعری کہتے ہیں قرآن ویسی شاعری تو نہیں ہے لیکن ایک خاص آہنگ اور روانی کی وجہ سے قرآن کی آیات میں blank verse کا سا انداز پایا جاتا ہے اور جملوں میں الفاظ کی تقدیم و تاخیر ہو جاتی ہے۔ اور غالباً یہ قرآنی اسلوب ہی دنیا میں  blank verseکے رواج کا باعث بنا ہے۔

UP
X
<>