May 3, 2024

قرآن کریم > الأحقاف >sorah 46 ayat 10

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

کہو کہ : ’’ ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ اگر یہ (قرآن) اﷲ کی طرف سے ہو، اور تم نے اُس کا انکار کر دیا، اور بنو اسرائیل میں سے ایک گواہ نے اس جیسی بات کے حق میں گواہی بھی دے دی، اور اُس پر ایمان بھی لے آیا، اور تم اپنے گھمنڈ میں مبتلا رہے (تو یہ کتنے ظلم کی بات ہے؟) یقین جانو کہ اﷲ ایسے لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچا تا جو ظالم ہوں ۔‘‘

آیت ۱۰  قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَکَفَرْتُمْ بِہٖ: ’’(اے نبی!) ان سے کہیے کہ کیا تم نے سوچا بھی ہے کہ اگر یہ (قرآن) واقعتا اللہ کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کر دیا (تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا)؟

           تم لوگ مجھے الزام دیتے ہو کہ میں نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے ‘لیکن جب تمہیں چیلنج دیاگیا کہ اس جیسی کتاب تم بھی بنا کر دکھائو بلکہ ایک سورت ہی بنا لائو تو تم اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکے‘ اس لیے دل سے تم بھی مانتے ہو کہ یہ کتاب انسانی تصنیف نہیں ہے ۔ بہر حال اگر تم اسے اللہ کا کلام نہیں مانتے تو یہ بات اچھی طرح سے سوچ لو کہ اگر واقعتا یہ اللہ ہی کا کلام ہوا تو تمہارے اس انکار کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

          وَشَہِدَ شَاہِدٌ مّنْ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ عَلٰی مِثْلِہٖ: ’’اور گواہی دے چکا ہے ایک گواہ بنی اسرائیل میں سے ایک ایسی ہی کتاب کی۔

          اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے مابین اختلا ف ہے۔ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اس سے عام اہل ِکتاب مؤ منین مراد ہیں‘ جبکہ کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ اس میں حضرت موسیٰ d کی طرف اشارہ ہے۔ بظاہر یہ دوسری رائے زیادہ معتبر معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ عہد نامہ قدیم ‘کتاب استثناء کے اٹھارہویں باب کی آیات ۱۸ ‘ ۱۹میں جو پیشین گوئی درج ہے اس میں یہ الفاظ ہیں:ـ ’’اے موسیٰؑ میں ان کے بھائیوں میں سے تیرے مثل ایک پیغمبر اٹھائوں گا اوراس کے منہ میں اپنا کلام ڈالوں گا‘‘۔ ان الفاظ کے مطابق تو مثلہٖ کایہی مفہوم واضح ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰd کی مثل حضرت محمد  ہیں اور حضرت محمد  کی طرح حضرت موسیٰd ہیں۔ کیونکہ حضرت موسیٰd بھی صاحب ِشریعت رسول ہیں اور حضور کو بھی قرآن کی شکل میں آخری اور کامل شریعت عطا کی گئی ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ صاحب کتاب رسول توہیں لیکن صاحب شریعت نہیں ہیں۔ سورۃ الزخرف کی آیت ۶۳ میں حضرت عیسیٰ  کا یہ قول ہم پڑھ چکے ہیں: قَالَ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمَۃِ: کہ میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں۔ سورۃ الزخرف کی اس آیت کے ضمن میں یہ وضاحت بھی گزر چکی ہے کہ انجیل میں احکام اور شریعت نہیں صرف حکمت ہے‘ جبکہ تورات اور قرآن قانون اور شریعت کی حامل کتابیں ہیں۔

          فَاٰمَنَ وَاسْتَکْبَرْتُمْ: ’’پس وہ تو ایمان لے آیا اور تم استکبار کر رہے ہو!

          یہود میں ایسے علماء بھی تھے (اگرچہ ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی) جو نبی آخر الزماں پر ایمان لے آئے تھے۔ جیسے حضرت عبداللہ بن سلام جو یہود کے بہت بڑے عالم تھے۔

          اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ : ’’بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

UP
X
<>