May 18, 2024

قرآن کریم > الزخرف >sorah 43 ayat 51

وَنَادَى فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَذِهِ الأَنْهَارُ تَجْرِي مِن تَحْتِي أَفَلا تُبْصِرُونَ

اور فرعون نے اپنی قوم کے درمیان پکار کر کہا کہ : ’’ اے میری قوم ! کیا مصر کی سلطنت میرے قبضے میں نہیں ہے؟ اور (دیکھو) یہ دریا میرے نیچے بہہ رہے ہیں ۔ کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا؟

آیت ۵۱:  وَنَادٰی فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِہٖ: ’’اور فرعون نے اپنی قوم میں ڈھنڈورا پٹوا دیا‘‘

           قَالَ یٰـــقَوْمِ اَلَـیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ: ’’اُس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے؟‘‘

          نوٹ کیجیے! یہ سیاسی شرک شرک کی بد ترین قسم ہے۔  حاکمیت صرف اللہ کی ہے‘ اس کے علاوہ جو کوئی بھی حاکمیت کا مدعی ہو ‘چاہے وہ ایک فرد ہو‘ ایک قوم ہو یا پوری نسل انسانی‘ وہ اللہ کے ساتھ برابری کا دعوے دار ہے۔  اور فرعون نے خدائی کا دعویٰ اسی مدعیت کے ساتھ اور اسی مفہوم میں کیا تھا، ورنہ وہ زمین و آسمان کے خالق ہونے کا دعوے دار تو ہر گز نہیں تھا۔  وہ خود بھی جانتا تھا کہ جس طرح تمام انسان پیدا ہوتے ہیں وہ بھی اسی طرح پیدا ہوا ہے اور سب کی نظروں کے سامنے پلا بڑھا ہے۔  چنانچہ اس کے خدائی کے دعوے کی اصل حقیقت یہی تھی کہ وہ حاکمیتِ مطلق کا دعوے دار تھا، جو کہ صرف اور صرف اللہ کا حق ہے۔  

          Divine Rights of the Kings کا ذکر آپ کو اہل یورپ کی تاریخ میں بھی ملے گا۔ ان کے ہاں بھی قدیم زمانے سے یہ تصور چلا آ رہا ہے کہ بادشاہوں کو خدائی اختیارات حاصل ہیں‘ ان کا اختیار مطلق ہے‘ وہ final legistative authority ہیں۔ ان کی مرضی ہے وہ جو چاہیں قانون بنا دیں۔ جبکہ یہ سوچ اور یہ دعویٰ بد ترین شرک ہے‘ جسے اہل یورپ نے دورِ حاضر میں جمہوریت کے نام سے عوام الناس میں تقسیم کر دیا ہے۔  چنانچہ جو گندگی کسی زمانے میں فرعون یا نمرود کے سر پر ٹنوں کے حساب سے لدی ہوتی تھی اسے انہوں نے تولوں اور ماشوں میں تقسیم کر کے اپنے ہر شہری کی جیب میں ڈال دیا ہے‘ کہ یہ لو ووٹ کی اس پرچی کے بل پر اب تم میں سے ہر ایک حکومت میں حصہ دار ہے۔ اب تم اپنی اکثریت کے ذریعے جو قانون چاہو بنا لو۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں اس شیطانی فریب کو خوب بے نقاب کیا ہے۔ ابلیس کا ایک مشیر (اقبال کے الفاظ میں) دوسرے مشیر سے کہتا ہے: 

 خیر ہے سلطانی جمہور  کا  غوغا  کہ شر؟

تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر!

کہ اب دنیا میں سلطانی جمہور (عوام کی حکمرانی) کے نام پر جو شور و غوغا اٹھا ہے وہ ابلیسی نظام کے لیے ایک بہت بڑا فتنہ اور خطرہ ہے۔  معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہمارے سب ہتھکنڈوں کا توڑ ڈھونڈنے پر تلا بیٹھا ہے۔  اگر انسانوں کا بنایا ہوا عوامی حاکمیت کا یہ سکہ دنیا میں چل گیا تو ہمارا کاروبار تو ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ اس کی اس بات پر دوسرا مشیر کہتا ہے: 

ہوں‘  مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے

جو ملوکیت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطر!

کہ میں اس ’’فتنے‘‘ کی اصلیت سے خوب با خبر ہوں‘ بہر حال تشویش کی کوئی بات نہیں۔  یہ جمہوریت بھی ملوکیت ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے: 

ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس

جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر!

اصل میں جب ہم نے دیکھا کہ انسان اپنے ’’بنیادی حقوق‘‘ کے بارے میں کچھ زیادہ ہی حساس ہوتا چلا جا رہا ہے تو ہم نے ’’شاہی‘‘ کو ’’جمہوری‘‘ لباس پہنا کر اس کے سامنے لا کھڑا کیا ہے کہ لو بھئی اب تو تمہارا عام شخص بھی حاکم بن گیا ہے‘ اب تو ہر شہری کو شاہی اختیار میں سے برابر کا حصہ مل گیا ہے۔ لہٰذا سلطانی جمہور کا یہ شوشہ ہماری ’’ابلیسیت‘‘ کے لیے کوئی خطرہ نہیں بلکہ ہمارا اپنا ہی تیار کردہ منصوبہ ہے۔  

          ملوکیت اور جمہوریت کی حقیقت کو اس مثال سے سمجھنا چاہیے کہ گندگی تو گندگی ہی ہے چاہے ٹنوں کے حساب سے کسی ایک شخص کے سر پر لاد دی جائے یا ایک کروڑ انسانوں میں تولہ تولہ ماشہ ماشہ تقسیم کر دی جائے۔  چنانچہ فرعون کو اسی ’’خدائی‘‘ کا دعویٰ تھا اور اس نے اپنی ’’خدائی‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے اعلان کیا کہ لوگو! دیکھو کیا مصر کی حکومت میرے قبضے میں نہیں ہے؟

           وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ: ’’اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں؟‘‘

          اس فقرے کا مفہوم ہمارے ہاں عام طور پر یوں سمجھ لیا جاتا ہے جیسے فرعون نے اپنے محل کے نیچے بہنے والے دریا کا ذکر کیا تھا‘ جبکہ اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ملک کے اندر آب پاشی کا پورا نظام جس پر تمہاری معیشت کا انحصار ہے‘ میرے حکم کے تابع ہے۔  میں جسے چاہوں اور جس قدر چاہوں پانی مہیا کروں۔  جس کو چاہوں کم پانی دوں ‘جس کو چاہوں زیادہ دوں اور جسے چاہوں پانی سے محروم کر دوں‘ مجھے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔  

           اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ: ’’تو کیا تم دیکھتے نہیں؟‘‘

UP
X
<>