May 17, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 26

يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ 

اﷲ چاہتا ہے کہ تمہارے لئے (احکام کی) وضاحت کر دے، اور جو (نیک) لوگ تم سے پہلے گذرے ہیں ، تم کو ان کے طور طریقوں پر لے آئے، اور تم پر (رحمت کے ساتھ) توجہ فرمائے، اور اﷲ ہر بات کا جاننے والا بھی ہے، حکمت والا بھی

ان تین آیات میں احکامِ شریعت کے ضمن میں فلسفہ و حکمت کا بیان ہو رہا ہے۔ احکامِ شریعت کو انسان اپنے اوپر بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔ اسے جب حکم دیا جاتا ہے کہ یہ کرو اور یہ مت کرو تو آدمی کی طبیعت ناگواری محسوس کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں نے شریعت کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکا ہے۔ 1970ء میں کرسمس کے موقع پر میں لندن میں تھا۔ وہاں میں نے ایک عیسائی دانشور کی تقریر سنی تھی‘ جس نے کہا تھا کہ شریعت لعنت ہے۔ خواہ مخواہ ایک انسان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ حلال ہے‘ یہ حرام ہے۔ جب وہ حرام سے رُک نہیں سکتا تو اس کا دل میلا ہو جاتا ہے۔  وہ اپنے آپ کو خطا کار سمجھنے لگتا ہے اور مجرم ضمیر (guilty conscience)  ہو جاتا ہے۔ اس احساس کے تحت وہ منفی نفسیات کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان کے نزدیک اس ساری خرابی کا سبب یہ ہے کہ آپ نے حرام اور حلال کا فلسفہ چھیڑا۔ اگر سب کام حلال سمجھ لیے جائیں تو کوئی حرام  کام کرتے ہوئے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ہوگا۔ دنیا میں ایسے ایسے فلسفے بھی موجود ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک فلسفہ ٔ احکام یہ ہے:

 آیت 26:  یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُــبَــیِّنَ لَــکُمْ: ’’اللہ چاہتا ہے کہ تمہار ے لیے اپنے احکام واضح کر دے‘‘

             وَیَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَـبْلِکُمْ: ’’اور تمہیں ہدایت بخشے ان راستوں کی جو تم سے پہلے کے لوگوں کے تھے‘‘

            پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں نیکوکار بھی تھے اور بدکار بھی۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم انبیاء و صلحاء اور نیکو کاروں کا راستہ اختیار کرو «صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ» اور تم دوسرے راستوں سے بچ سکو۔

             وَیَتُوْبَ عَلَیْکُمْ: ’’اور تم پر نظر عنایت فرمائے۔‘‘

             وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ: ’’اور اللہ سب کچھ جاننے والا کمالِ حکمت والا ہے۔‘‘ 

UP
X
<>