April 19, 2024

قرآن کریم > الزمر

الزمر

        سورہ صٓ کے اختتام پر زیر مطالعہ گروپ کی پہلی پانچ سورتیں  مکمل ہو چکی ہیں ۔ اس گروپ کے اندر ان پانچ سورتوں  (سورۂ سبا تا سورۂ صٓ)  پر مشتمل ایک ضمنی گروپ بنتا ہے جس کے بالکل وسط میں  سورۂ یٰسٓہے۔ یعنی سورۂ سبا اور سورۂ فاطر (یہ دونوں  سورتیں  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سے شروع ہوتی ہیں)  ایک طرف ہیں  جبکہ سورۃ الصّٰفّٰت اور سورئہ صٓ (ان دونوں  سورتوں  کے آغاز میں  حرف ’’ص‘‘ مشترک ہے)  دوسری طرف جبکہ عین وسطمیں  سورۂ یٰسٓہے۔

        اس گروپ کی بقیہ آٹھ سورتیں (سورۃ الزمر تا سورۃ الاحقاف)  ایک لحاظ سے گزشتہ گروپ کی سورۃ الفرقان سے لے کر سورۃ السجدۃ تک کی آٹھ سورتوں  سے مشابہت رکھتی ہیں ۔ مذکورہ آٹھ سورتوں  میں  بھی ایک سورۃ (الفرقان)  حروفِ مقطعات کے بغیر ہے جبکہ باقی سات سورتوں  کا آغاز حروفِ مقطعات سے ہوتا ہے۔ یعنی سورۃ الشعراء اور سورۃ القصص کا آغاز طٰسٓمٓ سے، سورۃ النمل کا طٰسٓ سے اور باقی چار سورتوں  (العنکبوت، الروم، لقمان اور السجدۃ)  کا آغاز الٓمّٓ سے ہوتا ہے۔ اسی طرح زیر مطالعہ گروپ کی آٹھ سورتوں  میں  بھی ایک سورۃ (الزمر)  ایسی ہے جس کے آغاز میں  حروفِ مقطعات نہیں  ہیں ، جبکہ باقی ساتوں  سورتیں  حروفِ مقطعات (حٰمٓ) سے شروع ہو رہی ہیں ۔ حٰمٓ سے آغاز ہونے کی وجہ سے ان سورتوں  کو ’’حوامیم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں  سورۃ الشوریٰ البتہ ایک ایسی سورت ہے جس کی دوسری آیت بھی حروفِ مقطعات (عٓسٓق)  پر مشتمل ہے۔ مضمون کے اعتبار سے یہ آٹھوں  سورتیں  ایک خاص ترتیب (sequence) میں ہیں  ۔ واضح رہے کہ اس سلسلہ ٔحوامیم میں  معنوی طور پر سورۃ الزمر بھی شامل ہے۔ ان میں  سے پہلی چار سورتوں  کا مرکزی مضمون ’’توحید عملی ‘‘ہے۔

        ’’توحید ِعملی ‘‘ چونکہ بہت اہم مضمون ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اسے اچھی طرح سے سمجھ لیا جائے۔ عقیدے کے طور پر توحید کو تو ہم سب جانتے ہیں ، یعنی اللہ کو ایک ماننا اور یہ ماننا کہ وہ اکیلا اور تنہا ہے(لَا ضِدَّ لَہٗ وَلَا نِدَّ لَہٗ وَلَا مِثْلَ لَہٗ وَلَا مِثَالَ لَہٗ وَلَا مَثِیْلَ لَـہٗ) ۔ اُس کا کوئی کُفْو نہیں ، اُس جیسا کوئی نہیں ، نہ تو ذات میں  اورنہ ہی صفات کے اعتبار سے۔ اسی عقیدہ کی وضاحت ہمیں  بہت جامع اور خوبصورت انداز میں  سورۃ الاخلاص میں  ملتی ہے:

قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ  اَللّٰہُ الصَّمَدُ  لَمْ یَلِدْ   وَلَمْ یُوْلَدْ  وَلَمْ یَکُنْ لَّــہٗ کُفُوًا اَحَدٌ

         عقیدئہ توحید کا عملی پہلو ’’توحید فی العمل‘‘ ہے ، جس کے لیے امام ابن تیمیہؒ نے ’’توحید فی الطلب ‘‘کی خوبصورت اصطلاح استعمال کی ہے۔ ’’طلب‘‘ کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے۔ کسی انسان کی ’’طلب‘‘ کے انتخاب ا ور معیار سے عملی زندگی میں  اس کی ترجیحات کا پتا چلتاہے۔ اس لحاظ سے ہر انسان گویا ’’طالب‘‘ ہے اور ہر انسان اپنا کوئی نہ کوئی مطلوب بھی رکھتا ہے۔ سورۃ الحج کی آیت ۷۳ میں  بتوں  اور ان کے پجاریوں  کے حوالے سے طالب اور مطلوب کے اس رشتے کی اہمیت اور نوعیت کو ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ کے الفاظ میں  بیان فرمایا گیا ہے۔ بہر حال ایک ذی شعور مخلوق ہونے کی حیثیت سے لازمی ہے کہ ہر انسان کا کوئی مطلوب، کوئی آئیڈیل یا کوئی آدرش ہو، جسے وہ اپنا مقصد ِحیات سمجھے۔ مگر عملی طور پر ایسا نہیں  ہے۔ عملی طور پر انسانوں  کی عظیم اکثریت کا کوئی اعلیٰ مقصد ِحیات ہے ہی نہیں  اور وہ محض اپنی جبلت (instinct) کے محرکات کے تحت حیوانی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں ۔ جس طرح حیوانات اپنی جبلی خواہشات پوری کرتے ہیں  اسی طرح وہ بھی کھاتے پیتے ہیں ، بچے پیدا کرتے ہیں  اور ان کی پرورش کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اور کوئی مقصد ان کی زندگی میں  نہیں  ہے۔ قرآن کی رائے میں  ایسے لوگ انسان نہیں  ، حیوان ہیں ، بلکہ حیوانوں  سے بھی بدتر ہیں :اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ:  (الاعراف :۱۷۹)

        اس زاویہ سے دیکھا جائے تو انسان کہلانے کا مستحق صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو محض اپنی جبلی خواہشات کا غلام بن کر نہ رہ گیا ہو بلکہ اس نے اس سطح سے برترہو کر اپنی زندگی کا کوئی اعلیٰ مقصد متعین کر رکھا ہو۔ اس حوالے سے جو اصل مقام و مرتبہ ایک انسان کے شایانِ شان ہے وہ یہ ہے کہ اس کا مقصد حیات اس کا خالق اور اس کا مالک ہو۔ یعنی صرف اللہ ہی اس کا مقصود ہو، وہی اس کا محبوب ہو اور وہی اس کا مطلوب ہو: لَا مَطْلُوْبَ اِلاَّ اللّٰہُ، لَا مَقْصُوْدَ اِلاَّ اللّٰہُ، لَا مَحْبُوْبَ اِلاَّ اللّٰہُ۔ زندگی میں  ہر ہر قدم اور ہر ہر موڑ پر اس کی نگاہیں  اس شان سے اللہ کی رضا مندی کی متلاشی ہوں  کہ اس کی زندگی اس فرمانِ الٰہی کی عملی تصویر بن جائے :قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ:  (الانعام) ’’ آپؐ کہیے میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں  کا پروردگار ہے۔ ‘‘

        یہ ہے توحید عملی یا توحید فی الطلب کا اصل مفہوم و مدعا۔ لیکن جو شخص صرف ’’عقیدئہ توحید‘‘ کا دعوے دار ہے اور عملی طور پر وہ توحید پر کاربند نہیں ، وہ شرک فی العمل کا مرتکب ہے۔ سورۃ الفرقان میں  ہم یہ آیت پڑھ چکے ہیں : اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰہُ اَفَاَنْتَ تَـکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا: ’’کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟ تو (اے نبی)  کیا آپ ایسے شخص کی ذمہ داری لے سکتے ہیں !‘‘ ایسا شخص کہتا تو خود کو مواحد ہے اور وہ نظریۂ توحید پر ایمان کا دعویٰ بھی کرتا ہے ، مگر عملی زندگی میں  وہ اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے اللہ کے احکام کو پامال کرنے سے دریغ نہیں  کرتا اور حلال و حرام کے ضمن میں  حدود اللہ کی سرے سے کوئی پروا نہیں  کرتا۔ ایسے ہی شخص کو حضور نے ’’درہم و دینار کا بندہ‘‘ قرار دیا ہے۔ آپ کا فرمان ہے:((تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْھَمِ…) )  یہ ایک ایسا کردار ہے جس کا نام تو عبداللہ یا عبدالرحمن ہے ، زبان سے وہ لا اِلہ اِلاَّ اللّٰہ کا اقرار بھی کرتا ہے، اس کلمہ توحید کے ورد کا اہتمام بھی کرتا ہے اور مسجد میں  جا جا کر با جماعت نمازیں  بھی پڑھتا ہے، مگر اُس کی عملی زندگی میں  توحید کہیں  نظر نہیں  آتی۔ عملی زندگی میں  اس نے اپنا مقصد ِحیات حصولِ دولت کو بنا رکھا ہے، اس کی فکر کا محور اور اس کی ساری دوڑ دھوپ کا ہدف ہی یہ ہے کہ اسے دولت ملنی چاہیے ، جہاں  سے بھی ملے ، جیسے بھی ملے۔ جائز طریقے سے ملے یا ناجائز طور سے۔ گویا اس نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ اصل میں  وہ ’’عبد اللہ‘‘ یا ’’عبد الرحمن‘‘ نہیں  ’’عبد الدینار ‘‘ہے اور عملی طور پر اس کا معبود اللہ نہیں  بلکہ روپیہ ، دینار یا ڈالر ہے۔

        اس میدان میں  ہم مسلمان ایک لحاظ سے ہندوؤں  سے بھی ا ٓگے نکل گئے ہیں ۔ ہندودولت حاصل کرنے کے لیے دولت کی دیوی لکشمی بائی کی پوجا کرتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں  کہ اس کی ِکرپا ہو جائے گی تودولت کے دروازے کھل جائیں  گے۔ ہم دیوی بنا نے اور اس کو پوجنے کو تو شرک تصور کرتے ہیں ، مگر براہِ راست دولت کی پوجا کو روا سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ہندو دولت کی دیوی کے پجاری بنے تھے، لیکن ہم براہِ راست دولت کے پجاری بن گئے۔

        توحید عملی کا پہلا نکتہ توحید فی العبادت ہے۔ یعنی بندگی اور اطاعت ُکل کی کل اللہ کے لیے ہو۔ باقی سب اطاعتیں  اس اطاعت کے تابع ہوں ۔ ماں ، باپ اور استاد کی اطاعت ضرورہو، مگر شریعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے۔ حاکم کا حکم بھی مانا جائے مگر صرف وہ جو اللہ کے کسی حکم کے خلاف نہ ہو۔ اس حوالے سے بنیادی اصول اور قانون یہ ہو گا: ((لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ))  یعنی مخلوق میں  سے ایسی اطاعت کسی کی نہیں  ہو سکتی جس سے خالق کی معصیت لازم آتی ہو۔ اگر ایسا ہوا تو یہ شرک ہو گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں  جس کسی کو بھی ’’مطاع ‘‘مانا گیا ، وہ چاہے کسی کا اپنا نفس ہو، حاکم وقت ہو، کوئی ادارہ ہو یا جو کوئی بھی ہو وہ ’’طاغوت‘‘ ہے۔ سورۃ الزمر میں  یہ مضمون بہت تکرار سے آئے گا کہ ایک بندہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرے تو اُ س کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے کرے۔

UP
X
<>