April 26, 2024

قرآن کریم > يس >sorah 36 ayat 9

وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لاَ يُبْصِرُونَ

اور ہم نے ایک آڑ اُن کے آگے کھڑی کر دی ہے، اور ایک آڑ اُن کے پیچھے کھڑی کر دی ہے، اور اس طرح اُنہیں ہر طرف سے ڈھانک لیا ہے جس کے نتیجے میں اُنہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا

آیت ۹   وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰہُمْ فَہُمْ لاَ یُبْصِرُوْنَ: ’’اور ہم نے ایک دیوار کھڑی کر دی ہے ان کے آگے اور ایک ان کے پیچھے، اس طرح ہم نے انہیں ڈھانپ دیا ہے، پس اب وہ دیکھ نہیں سکتے۔‘‘

        یہ مضمون آگے چل کر آیت: ۴۵ میں پھرآئے گا --- اللہ تعالیٰ کی معرفت اور حق کی پہچان کے لیے اگر انسان کو راہنمائی چاہیے تو اس مقصد کے لیے بے شمار آفاقی آیات (آلاء اللہ) ہر وقت ہر جگہ اس کے سامنے ہیں۔ قرآن حکیم بار بار انسان کو ان آیات کے مشاہدے کی دعوت دیتا ہے۔ جیسے سورۃ البقرۃ کی آیت: ۱۶۴میں بہت سی آفاقی نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہر انسان اپنی ذہنی سطح کے مطابق ان ’’آیات‘‘ کے مشاہدے سے ان کے خالق کو پہچان سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی آیات (ایام اللہ) سے بھی انسان کو راہنمائی مل سکتی ہے۔ یعنی اگر کوئی انسان چاہے تو اقوامِ سابقہ کے حالات سے بھی اسے سبق اور عبرت کا وافر سامان حاصل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یہ ہے کہ یہ ایسے بد بخت لوگ ہیں جو نہ تو التذکیر بآلاء للہ سے استفادہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ التذکیر بایام اللہ سے کچھ سبق حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ گویا یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے دیوار حائل ہو چکی ہے کہ وہ اللہ کی کسی بڑی سے بڑی نشانی کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اسی طرح ان کے پیچھے بھی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے اور یوں وہ تاریخ اور اقوام ماضی کے حالات سے بھی کسی قسم کا سبق حاصل کرنے سے قاصر و معذور ہیں۔ 

UP
X
<>