May 3, 2024

قرآن کریم > يس >sorah 36 ayat 12

إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ

یقینا ہم ہی مُردوں کو زندہ کریں گے، اور جو کچھ عمل اُنہوں نے آگے بھیجے ہیں ، ہم اُن کو بھی لکھتے جاتے ہیں ، اور اُن کے کاموں کے جو اَثرات ہیں اُن کو بھی۔ اور ہم نے ایک واضح کتاب میں ہر ہر چیز کا پورا اِحاطہ کر رکھا ہے

آیت ۱۲   اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَہُمْ: ’’یقینا ہم ہی زندہ کریں گے ُمردوں کو، اور ہم لکھ رہے ہیں جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا اور جو اثرات وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔‘‘

        انسان مرنے سے پہلے اپنی زندگی میں جو اچھے برے اعمال آگے بھیجتا ہے وہ ساتھ ہی ساتھ اس کے اعمال نامے میں درج ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن انسان کے کچھ اعمال و افعال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات اس کی موت کے بعد بھی اس دنیا میں رہتے ہیں۔ چنانچہ یہاں پر ’’آثار‘‘ سے مراد انسان کے ایسے ہی کام ہیں ۔ بہر حال انسا ن کو آخرت میں ان ’’آثار‘‘ کا بدلہ بھی دیا جائے گا۔ مثلاً اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں کسی ایسے نیک عمل کی بنیاد ڈالی جس کے اثرات دیر پا ہوں تو جب تک اس نیک کام کا تسلسل اس دنیا میں رہے گا، اس کا اجر و ثواب اس شخص کے حساب میں لکھا جاتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے گناہ اور بے حیائی کے کسی کام کی بنیاد رکھی تو جب تک اس کام یا منصوبے کے منفی اثرات اس دنیا میں رہیں گے، اس میں سے متعلقہ شخص کے حصے کے گناہوں کا اندراج اس کے اعمال نامے میں مسلسل ہوتا رہے گا۔

        وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ: ’’اور ہر چیز کا احاطہ ہم نے ایک واضح کتاب میں کررکھا ہے۔‘‘

        ’’اِمَامٍ مُّبِیْنٍ‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم قدیم ہے جسے سورۃ الرعد کی آیت ۳۹ اور سورۃ الزخرف کی آیت: ۴ میں ’’اُمّ الْکِتٰب‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔ 

UP
X
<>