May 17, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 36

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً مُّبِينًا

اور جب اﷲ اور اُس کا رسول کسی بات کا حتمی فیصلہ کردیں تو نہ کسی مومن مرد کیلئے یہ گنجائش ہے، نہ کسی مومن عورت کیلئے کہ اُن کو اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی رہے۔ اور جس کسی نے اﷲ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کی، وہ کھلی گمراہی میں پڑگیا

آیت ۳۶    وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ: ’’اور کسی مؤمن مرد اور مؤمن عورت کے لیے روا نہیں کہ جب اللہ اور اُس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو (پھر بھی انہیں یہ خیال ہو کہ) ان کے لیے اپنے اس معاملے میں کوئی اختیار باقی ہے۔‘‘

        یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ  نے حضرت زیدؓ کے لیے حضرت زینبؓ کے ساتھ نکاح کا پیغام بھجوایاتھا اور حضرت زینبؓ اور ان کے بھائی عبداللہؓ بن جحش اسے منظور کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد وہ فوراً آمادہ ہو گئے۔

        وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا: ’’اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔‘‘

        اپنے سیاق و سباق کے حوالے سے اگرچہ اس فقرے کا تعلق پس منظر میں بیان کیے گئے معاملہ سے ہے، لیکن اس حکم کی نوعیت ایک قاعدہ کلیہ کی ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ اور اللہ کے رسول  کے فیصلے کے بعد بھی کسی معاملے میں یہ سمجھے کہ اب بھی اس کے پاس کوئی اختیار (option) باقی ہے تو وہ گویا اللہ اور اس کے رسول  کی نافرمانی کا مرتکب ہو کر اس آیت کا مصداق ٹھہرے گا۔

        حضرت زینب بنت جحش حضور  کی پھوپھی اُمیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی تھیں۔ اس لحاظ سے ان کا تعلق قریش کے اونچے خاندان سے تھا۔ دوسری طرف حضرت زیدؓ بن حارثہ آزاد کردہ غلام تھے۔ اگرچہ ان کا تعلق بھی عرب کے ایک شریف خاندان سے تھا، لیکن غلام تو وہ بہر حال رہ چکے تھے۔ اس لیے اگرچہ اس حکم کے بعد حضرت زینب اور ان کے گھر والوں نے اس نکاح کو قبول کر لیا تھا، لیکن گمانِ غالب یہی ہے کہ حضرت زینبؓ خاندانی تفاوت کے معاملے میں اپنے جذبات واحساسات کی وجہ سے حضرت زید کو شوہر کے طور پر مطلوبہ ادب و احترام نہ دے سکیں۔ حضرت زید نے متعدد بار حضور  سے اس صورت حال کی شکایت بھی کی اور طلاق دینے کی اجازت بھی چاہی مگر حضور  ہر دفعہ انہیں موافقت کی کوشش کرنے کی ہدایت فرما دیتے:

UP
X
<>