May 17, 2024

قرآن کریم > لقمان >sorah 31 ayat 34

إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

یقینا (قیامت کی) گھڑی کا علم ا ﷲ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹ میں کیا ہے، اور کسی متنفس کو یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ کل کیا کمائے گا، اور نہ کسی متنف کو یہ پتہ ہے کہ کونسی زمین میں اُسے موت آئے گی۔ بیشک اﷲ ہر چیز کامکمل علم رکھنے والا، ہر بات سے پوری طرح باخبر ہے

آیت ۳۴   اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ: ’’یقینا اللہ ہی ہے جس کے پاس ہے قیامت کا علم۔‘‘

      اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ گھڑی کب آئے گی۔ عام طور پر ہم ’’قیامت‘‘ اور ’’السّاعۃ‘‘ کے الفاظ کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہیں اور انہیں باہم مترادف الفاظ سمجھتے ہیں ۔ لیکن یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ ان دونوں میں سے ہر لفظ کا اپنا الگ مفہوم ہے۔ ’’السَّاعۃ‘‘ کے معنی مخصوص گھڑی کے ہیں اور قرآنی اصطلاح کے مطابق ’’السَّاعۃ‘‘ وہ معین ّگھڑی ہے جب پوری زمین زلزلے سے جھنجھوڑڈالی جائے گی، اجرامِ سماویہ ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اُڑتے پھریں گے۔ مثلاً سورۃ القارعہ میں ’’السَّاعۃ‘‘ کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے: (اَلْقَارِعَۃُ   مَا الْقَارِعَۃُ  وَمَآ اَدْرٰٹکَ مَا الْقَارِعَۃُ  یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ  وَتَـکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ) ’’وہ کھڑ کھڑانے والی! کیا ہے وہ کھڑکھڑانے والی؟ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ کھڑکھڑانے والی! جب لوگ ایسے ہوں گے جیسے بکھرے ہوئے پتنگے۔ اور پہاڑ ایسے ہو جائیں گے جیسے دھنکی ہوئی روئی۔‘‘

      اسی طرح لفظ ’’قیامت‘‘ کا جائزہ لیں تو اس کے لغوی معنی قیام کرنے اور کھڑے ہونے کے ہیں اور اس سے وہ وقت یا وہ دن مرا دہے جب تمام لوگ دوبارہ زندہ ہو کر اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے۔

      وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ: ’’اور وہی بارش برساتا ہے۔‘‘

      وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ: ’’اور وہ جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے۔‘‘

      وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا: ’’اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل وہ کیا کمائی کرے گی۔‘‘

      وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ: ’’اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں اُس کی موت واقع ہو گی۔‘‘

      اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک آدمی ساری عمر ایک جگہ مقیم رہا، مگر کبھی اچانک وہ کسی دوسرے ملک گیا اور وہاں اس کی موت واقع ہو گئی، جبکہ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اُسے موت اس دیارِ غیر میں آئے گی۔

      اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ: ’’یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘

      اس آیت کے حوالے سے کچھ لوگ خواہ مخواہ اشکال پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس لیے اس کا مفہوم اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پہلا نکتہ یہ نوٹ کر لیں کہ جن پانچ چیزوں کا ذکر اس آیت میں ہو اہے ان میں سے پہلی اور آخری دو یعنی ُکل تین چیزیں ایسی ہیں جن کے ذکر میں ’’حصر‘‘ کا اسلوب ہے، یعنی ان میں دو ٹوک نفی (categorical denial) موجود ہے کہ ان چیزوں کا علم صرف اللہ کو ہے، اُس کے سوا کوئی دوسرا اُن کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ یہ تین چیزیں ہیں : عِلمُ السَّاعۃ،اس چیز کا علم کہ کل کوئی کیا کرے گا، اور کسی کو اپنی موت کی جگہ کا علم ہونا۔جبکہ باقی دو چیزوں (دوسری اور تیسری) کے ذکر میں ’’حصر‘‘ کا اسلوب نہیں ہے۔ یعنی ان کا ذکر کرتے ہوئے کسی دوسرے کے علم کی نفی نہیں کی گئی۔ بلکہ بارش کے حوالے سے تو یہاں اللہ کی قدرت کا ذکر ہوا ہے، نہ کہ اُس کے علم کا، کہ اللہ بارش برساتا ہے۔ اس سلسلے کے دوسرے فرمان (وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ) میں بھی اللہ کے علم کا ذکر ہے کہ وہ جانتا ہے جو کچھ رحموں کے اندر ہے، اور یہاں بھی ’’حصر‘‘ کا اسلوب نہیں ہے۔ یعنی کسی دوسرے کے علم کی یہاں بھی نفی نہیں کی گئی۔ چنانچہ قرآن کے ان الفاظ میں نہ تو کوئی اشکال ہے اور نہ ہی کسی اعتراض کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ البتہ بعض لوگ اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں جواس آیت کی وضاحت میں وارد ہوئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی متفق علیہ ’’حدیث جبریل‘‘ میں مذکور ہے کہ نووارد شخص (جو دراصل حضرت جبرائیل تھے) نے رسول اللہ سے ایمان، اسلام اور احسان کے بارے میں سوالات کرنے کے بعد دریافت کیا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَتَی السَّاعَۃُ؟ ’’اے اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟‘‘ اس پر رسول اللہ نے فرمایا: ((مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ!)) ’’جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا!‘‘ --- اس کے بعد رسول اللہ نے قیامت کی چند علامات بیان فرمائیں اور پھر ارشاد فرمایا: ((فِیْ خَمْسٍ لَا یَعْلَمُھُنَّ اِلَّا اللّٰہُ)) ’’پانچ چیزوں کے بارے میں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: (اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ  وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا  وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ  اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ)

      اس حدیث کے حوالے سے عام طور یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آج کل ماں کے پیٹ کے اندر بچے کی جنس کے بارے میں معلوم کیا جا سکتا ہے، لہٰذا یہ دعویٰ درست نہیں کہ اس کے بارے میں اللہ کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ لیکن غور کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ یہ اعتراض بھی درست نہیں ۔ کیونکہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے؟ اب تک انسان اس کے صرف ایک پہلو یعنی بچے کی جنس (لڑکا یا لڑکی) کے بارے میں ہی معلوم کر سکا ہے، جبکہ اس کے بہت سے دوسرے پہلوئوں کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جا ن سکتا۔ مثلاً ماں کے پیٹ میں موجود بچے کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ بچہ کن صلاحیتوں کا مالک ہو گا؟ ذہین و فطین ہو گا یا کند ذہن، نیکو کار ہو گا یا بدکار۔ اسی طرح بارش کے بارے میں محکمہ موسمیات کی پیشین گوئیوں کی حقیقت ظن و تخمین سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ چنانچہ اس توجیہہ کی موجودگی میں حدیث کے الفاظ پر بھی اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی۔

بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم، ونفعنی وایّاکم بالآیات والذِّکر الحکیم.

UP
X
<>