April 20, 2024

قرآن کریم > الروم

الروم

سْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

سُورۃُ الرُّوم

تمہیدی کلمات

      سورۃ الروم کا آغاز رسول اللہ کے زمانے کی دو بڑی سلطنتوں یعنی ایرانی سلطنت اور سلطنت ِروما کی باہمی چپقلش کے ذکر سے ہواہے اور اسی حوالے سے ابتدائی آیات میں ایک بہت بڑی پیشین گوئی کا ذکر بھی ہے۔ اس موضوع اور اس سے متعلق پیشین گوئی کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس کے تاریخی پس منظر سے آگاہی ضروری ہے۔

      ایرانی سلطنت کی بنیاد آج سے کوئی ڈھائی ہزار سال قبل ایران کے عظیم بادشاہ کے خسرو (Cyrus) نے رکھی تھی، جسے ’’ذوالقرنین‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف سلطنت روما نے بھی صدیوں سے خود کو ایک بہت بڑی طاقت کے طور پر منوا رکھا تھا۔ سلطنت روما کا بڑ احصہ تو یورپ کے علاقوں پر مشتمل تھا لیکن ترکی کا پورا علاقہ اور شام سمیت مغربی بحر روم (Mediterranean Sea) کے ساحلی علاقے بھی اس کے قبضے میں تھے۔ مذہب کے اعتبار سے رومی عیسائی تھے (۳۰۰ عیسوی میں پوری رومی سلطنت نے عیسائیت قبول کر لی تھی) ، جبکہ ایرانی آتش پرست تھے۔ ان دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان طاقت کے توازن میں پچھلی ایک صدی سے جھولے (sea saw) کی سی کیفیت تھی۔ جب کبھی ایرانیوں میں کوئی باصلاحیت حکمران برسراقتدار آتا تو وہ رومیوں کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیتا اور اسی طرح جب رومیوں کے کسی طاقتور بادشاہ کو موقع ملتا تو وہ ایرانیوں سے بہت سے علاقے خالی کرا لیتا۔

      حضور کی ولادت (۵۷۱ء) کے زمانے میں دونوں طاقتوں کی روایتی کشمکش جاری تھی۔ ۶۰۲ء میں اس کش مکش نے باقاعدہ ایک جنگ کی صورت اختیار کر لی۔ اس وقت حضور کی عمر مبارک ۳۱ برس تھی۔ یہ جنگ بالآخر ۶۱۴ء میں ایران کے بادشاہ خسرو پرویز (کے خسرو ثانی) کے ہاتھوں رومیوں کی بدترین شکست پر ختم ہوئی۔ اس جنگ میں رومی سلطنت کو ترکی کے اہم شہروں سمیت اپنے بہت سے علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ان کے مقدس شہر ایلیا (یہ یروشلم ہی کا دوسرا نام ہے۔ یروشلم ۷۰ عیسوی میں بالکل تباہ ہو گیا تھا، بعد میں رومی شہنشاہ ہیڈریان کے دور میں اسے ایلیا کے نام سے ازسرنو ِآباد کیا گیا) کو بھی ایرانیوں نے تباہ و برباد کر دیا اوروہاں پر نصب مقدس صلیب بھی ان کے قبضے میں چلی گئی۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق یہ وہی صلیب تھی جس پر حضرت مسیح کو مصلوب کیا گیاتھا۔

      رومیوں کی اس شکست کے وقت مکہ میں حضور کی دعوت شروع ہوئے تقریباًپانچ برس ہو چکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ اہل ایمان کے ساتھ مشرکین کی زیادتیاں روز بروز بڑھتی جا رہی تھیں اورمقامی آبادی واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ایرانیوں اور رومیوں کی جنگ میں مشرکین مکہ کی ہمدردیاں ایرانیوں کے ساتھ تھیں ، اس لیے کہ وہ ایرانیوں کو آتش پرست (مشرک) ہونے کی وجہ سے اپنا ہم مذہب خیال کرتے تھے۔ دوسری طرف رومی چونکہ اہل کتاب تھے اس لیے مسلمان فطری طور ان کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اور وہ ان کی شکست پر دل گرفتہ بھی تھے۔ ان حالات میں مشرکین مکہ رومیوں کی شکست پر بغلیں بجا رہے تھے اور دن رات اس پروپیگنڈا میں مصروف تھے کہ جس طرح آج آتش پرست ایرانیوں کے ہاتھوں پیغمبروں اور الہامی کتابوں کے ماننے والوں کو شکست ہوئی ہے کل اسی طرح ہم بت پرستی کے علمبردار بھی مسلمانوں کا قلع قمع کر دیں گے۔ اُس وقت مکہ کی سرزمین مسلمانوں پر تنگ کر دی گئی تھی اور ۶۱۵ء میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر حبشہ کی عیسائی سلطنت میں (جو سلطنت روم کی حلیف تھی) پناہ لینا پڑی تھی۔

      ان حالات میں یہ سورت نازل ہوئی اور اس کی ابتدائی آیات میں واضح پیشین گوئی کی گئی کہ قریب کی سرزمین میں اس وقت واقعی رومی شکست کھا چکے ہیں ، مگر چند ہی سال میں یہ صورت تبدیل ہو جائے گی اور وہ پھر سے ایرانیوں پر غالب آ جائیں گے۔ بظاہر چونکہ یہ بالکل اَنہونی بات تھی اس لیے مشرکین مکہ نے اسے بھی تضحیک کا نشانہ بنایا۔ وہ اس پیشین گوئی کو اکثر موضوعِ گفتگو بنا کر مسلمانوں کو زچ کرنے کی کوشش کرتے۔ ایک مشرک اُبی بن خلف نے اس حوالے سے حضرت ابوبکرصدیق کے ساتھ شرط لگائی کہ اگر قرآن کی پیشین گوئی کے مطابق تین سال کے اندر رومی غالب آ گئے تو دس اونٹ میں تمہیں دوں گا، ورنہ دس اونٹ تم کو دینا ہوں گے۔ حضرت ابوبکر نے یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش کیا تو چونکہ اس وقت تک شرط وغیرہ کی حرمت کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے آپؐ نے اس کی اجازت دے دی، لیکن چونکہ لفظ ’’بِضع‘‘ (چند) کا اطلاق گنتی کے اعتبار سے تین سے لے کر نو تک کے اعداد پر ہوتاہے اس لیے آپؐ نے پیشین گوئی پورا ہونے کی مدت تین سال سے بڑھا کر نو سال جبکہ اونٹوں کی تعداد بڑھا کر سو کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر نے سو اونٹوں پر شرط پکی کر دی۔ ٹھیک نو سال بعد جب یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہو گئی تو اُبی بن خلف کے وارثوں کو سو اونٹ حضرت ابوبکر کے حوالے کرنے پڑے۔ اس وقت تک جوئے کی حرمت کی آیات نازل ہو چکی تھیں اس لیے حضور نے حکم دیا کہ وہ اونٹ صدقہ کر دیے جائیں ۔

      دوسری طرف روم کا ہرقل اعظم (Heraclius) اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے مسلسل منصوبہ بندی میں مصروف رہا۔ آٹھ سال بعد (۶۲۲ء میں جب نبی مکرم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے) ہرقل نے حالات کو سازگار سمجھتے ہوئے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا اورایک بڑے لشکر کے ساتھ خفیہ طور پرایک لمبا چکر کاٹ کر بحیرہ کیسپین (Caspian Sea) کی طرف سے ایرانیوں کی پشت پر زور دار حملہ کر دیا۔ ایرانیوں کے لیے یہ حملہ بالکل غیر متوقع تھا۔ چنانچہ وہ اس کی تاب نہ لا سکے۔ نتیجتاً انہیں اس معرکے میں ذلت آمیز شکست ہوئی اور ہرقل ان سے اپنے مقبوضہ علاقے واگزار کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ اسی سال اللہ کی مدد سے بدر میں مسلمانوں کو بھی فتح (الفرقان) نصیب ہوئی اور اس طرح اِن آیات کی دونوں پیشین گوئیاں حرف بحرف پوری ہو گئیں۔

UP
X
<>