May 6, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 7

هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ

(اے رسول !) وہی اﷲ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے، اور کچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں ۔ اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان آیتوں کی تأویلات تلاش کریں، حالانکہ ان آیتوں کا ٹھیک ٹھیک مطلب اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور جن لوگوں کا علم پختہ ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ: ’’ ہم اس (مطلب) پر ایمان لاتے ہیں (جو اﷲ کو معلوم ہے) ۔ سب کچھ ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہے۔‘‘ اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں

آیت 7:     ہُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ:  «وہی ہے جس نے آپ پر یہ کتاب نازل فرمائی»

    کسی کسی جگہ  «نَزَّلَ» کے بجائے  «اَنْزَلَ» کا لفظ بھی آ جاتا ہے‘ اور یہ آہنگ (rhythm) کے اعتبار سے ہوتا ہے‘ کیونکہ قرآن مجید کا اپنا ایک ملکوتی غنا (Divine Music)  ہے‘ اس میں اگر آہنگ کے حوالے سے ضرورت ہو تو یہ الفاظ ایک دوسرے کی جگہ آ جاتے ہیں۔

      مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْـکِتٰبِ:  «اس میں محکم آیات ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں»

     «محکم» اور پختہ آیات وہ ہیں جن کا مفہوم بالکل واضح ہو اور جنہیں اِدھر سے اُدھر کرنے کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ اس کتاب کی جڑ‘ بنیاد اور اساس وہی ہیں۔

       وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ:  «اور کچھ دوسری آیتیں ایسی ہیں جومتشابہ ہیں۔»

      جن کا حقیقی اور صحیح صحیح مفہوم معین کرنا بہت مشکل بلکہ عام حالات میں ناممکن ہے۔ اس کی تفصیل تعارفِ قرآن کے ضمن میں عرض کی جا چکی ہے۔ آیاتُ الاحکام جتنی بھی ہیں وہ سب محکم ہیں‘ کہ یہ کرو یہ نہ کرو‘ یہ حلال ہے یہ حرام ! جیسا کہ ہم نے سورۃ البقرۃ میں دیکھا کہ بار بار «کُتِبَ عَلَـیْکُمْ» کے الفاظ آتے رہے ۔  میں عرض کر چکا ہوں کہ کتاب درحقیقت ہے ہی مجموعۂ احکام۔لیکن جن آیات میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی بحث ہے ان کا فہم آسان نہیں ہے۔اللہ کی ذات و صفات کا ہم کیا تصور کر سکتے ہیں ؟ اللہ کا ہاتھ‘ اللہ کا چہرہ‘ اللہ کی کرسی‘ اللہ کا عرش‘ ان کا ہم کیا تصور کریں گے؟ اسی طرح فرشتے عالم ِغیب کی شے ہیں۔ عالم ِبرزخ کی کیا کیفیت ہے؟ قبر میں کیا ہوتا ہے؟ ہم نہیں سمجھ سکتے۔ عالم ِآخرت‘ جنت اور دوزخ کی اصل حقیقتیں ہم نہیں سمجھ سکتے۔ چنانچہ ہماری ذہنی سطح کے قریب لا کر کچھ باتیں ہمیں بتا دی گئی ہیں کہ مَا لَا یُدْرَکُ کُلُّہ لَا یُتْرَکُ کُلُّہ۔ چنانچہ ان کا ایک اجمالی تصور قائم ہو جانا چاہیے‘اس کے بغیر آدمی کا راستہ سیدھا نہیں رہے گا۔ لیکن ان کی تفاصیل میں نہیں جانا چاہیے۔ دوسرے درجے میں مَیں نے آپ کو بتایا تھا کہ کچھ طبیعیاتی مظاہر (Physical Phenomena)  بھی ایک وقت تک آیاتِ متشابہات میں سے رہے ہیں‘ لیکن جیسے جیسے سائنس کا علم بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ رفتہ رفتہ ان کی حقیقت سے پردہ اٹھتا جا رہا ہے اور اب بہت سی چیزیں محکم ہو کر ہمارے سامنے آرہی ہیں ۔ تاہم اب بھی بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت سے ہم بے خبر ہیں۔ جیسے ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ سات آسمان سے مراد کیا ہے؟ ہمارا یقین ہے کہ اِن شاء اللہ وہ وقت آئے گا کہ انسان سمجھ لے گا کہ ہاں یہی بات صحیح تھی اور یہی تعبیر صحیح تھی جو قرآن نے بیان کی تھی۔

       فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَـیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ:  «تو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ پیچھے لگتے ہیں ان آیات کے جو ان میں سے متشابہ ہیں »

      ابْـتِغَـآءَ الْفِتْـنَۃِ:  «فتنے کی تلاش میں»

     وہ چاہتے ہیں کہ کوئی خاص نئی بات نکالی جائے تاکہ اپنی ذہانت اور فطانت کا ڈنکا بجایا جاسکے یا کوئی فتنہ اٹھایا جائے‘ کوئی فساد پیدا کیا جائے۔ جن کا اپنا ذہن ٹیڑھا ہو چکا ہے وہ اس ٹیڑھے ذہن کے لیے قرآن سے کوئی دلیل چاہتے ہیں۔ چنانچہ اب وہ متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں کہ ان میں سے کسی کے مفہوم کو اپنے من پسند مفہوم کی طرف موڑ سکیں۔ یہ اس سے فتنہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

     وَابْـتِغَــآءَ تَاْوِیْـلِہ:  « اور ان کی حقیقت و ماہیت معلوم کرنے کے لیے۔»

     وہ تلاش کرتے ہیں کہ ان آیات کی اصل حقیقت‘ اصل منشا اور اصل مراد کیا ہے۔ یعنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی کا علمی ذوق ہی ایسا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کی فطرت میں کجی ہو۔

      وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْـلَہ اِلاَّ اللّٰہُ : «حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔»

      وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْْعِلْمِ یَــقُوْلُــوْنَ اٰمَنَّا بِہ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا:  «اور جو لوگ علم میں راسخ ہیں وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اس کتاب پر‘ یہ کل کا کل ُہمارے رب کی طرف سے ہے۔»

     جن لوگوں کو رسوخ فی العلم حاصل ہو گیا ہے‘ جن کی جڑیں علم میں گہری ہو چکی ہیں ان کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ جو بات صاف سمجھ میں آ گئی ہے اس پر عمل کریں گے اور جو بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آ رہی ہے اس کے لیے انتظار کریں گے‘ لیکن یہ اجمالی یقین رکھیں گے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔

             وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاََلْـبَابِ:  «اور یہ نصیحت حاصل نہیں کر سکتے مگر وہی جو ہوش مند ہیں۔»

      اور سب سے بڑی ہوش مندی یہ ہے کہ انسان اپنی عقل کی حدود (limitations)  کو جان لے کہ میری عقل کہاں تک جا سکتی ہے۔ اگر انسان یہ نہیں جانتا تو پھر وہ اولوالالباب میں سے نہیں ہے ۔ بلاشبہ عقل بڑی شے ہے لیکن اس کی اپنی حدود ہیں۔ ایک حد سے آگے عقل تجاوز نہیں کر سکتی :  

گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور

چراغِ  راہ  ہے  منزل  نہیں  ہے!

یعنی منزل تک پہنچانے والی شے عقل نہیں‘ بلکہ قلب ہے۔ لیکن عقل بہرحال ایک روشنی دیتی ہے‘ حقیقت کی طرف اشارے کرتی ہے۔ 

UP
X
<>