May 6, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 1

الم 

الم 

تمہیدی کلمات::

            قرآن حکیم کے آغاز میں واقع مکی ّاور مدنی سورتوں کے پہلے گروپ میں مدنی سورتوں کے جو دو جوڑے آئے ہیں‘ ان میں سے پہلے جوڑے کی پہلی سورت «سورۃ البقرۃ» کے ترجمے اور مختصر تشریح کی ہم تکمیل کر چکے ہیں‘ اور اب ہمیں اس جوڑے کی دوسری سورت «آل عمران» کا مطالعہ کرنا ہے۔   یہ بات پہلے بیان ہو چکی ہے کہ دو چیزوں کے مابین جوڑا ہونے کی نسبت یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں میں گہری مشابہت بھی ہو لیکن کچھ فرق بھی ہو‘ اور یہ فرق ایسا ہو جو ایک دوسرے کے لیے تکمیلی (complementary) نوعیت کا ہو‘ یعنی ایک دوسرے سے مل کر کسی مقصد کی تکمیل ہوتی ہو۔  یہ نسبت ِزوجیت کی حقیقت ہے۔   

            سورۃ البقرۃ اور سورئہ آل عمران میں مشابہت کے نمایاں پہلو یہ ہیں کہ دونوں حروفِ مقطعات «الـــمّ» سے شروع ہوتی ہیں۔  دونوں کے آغاز میں قرآن مجید کی عظمت کا بیان ہے‘ اگرچہ سورئہ آل عمران میں اس کے ساتھ ہی تورات اور انجیل کا بیان بھی ہے۔  پھر یہ کہ دونوں کے اختتام پر بڑی عظیم آیات آئی ہیں۔  سورۃ البقرۃ کے اختتام پروارد آیات ہم پڑھ چکے ہیں۔  اس کی آخری آیت کو قرآن حکیم کی عظیم ترین دعائوں میں سے شمار کیا جاسکتا ہے:  رَبَّـنَا لاَ تُــؤَاخِذْنَــآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَـاج … :  سورئہ آل عمران کے آخری رکوع میں بھی ایک نہایت جامع دعا آئی ہے جو تین چار آیتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔  پھر جیسے میں نے آپ کو بتایا‘ سورۃ البقرۃ بھی  سُــورۃُ الاُمَّـتَین ہے‘ دو اُمتوں ّسے خطاب اور گفتگو کر رہی ہے‘ اور یہی معاملہ سورئہ آل عمران کا بھی ہے۔  فرق یہ ہے کہ سورۃ البقرۃ میں زیادہ گفتگو یہود کے بارے میں ہے اور سورۃ آل عمران میں نصاریٰ کے بارے میں۔  تو گویا اس طرح اہل کتاب سے گفتگو کی تکمیل ہو رہی ہے۔  اہل ِکتاب میں سے «یہود» اہم تر طبقہ تھا اور دینی اعتبار سے ان کی اہمیت زیادہ تھی‘ خواہ تعداد میں وہ کم تھے اور کم ہیں۔  دوسرا طبقہ عیسائیوں کا ہے‘ جن کا تذکرہ سورۃ البقرۃ میں بہت کم آیا ہے‘ لیکن سورئہ آل عمران میں زیادہ خطاب اُن سے ہے۔  پھر جیسے سورۃ البقرۃ کے دو تقریباً مساوی حصے ہیں‘ پہلا نصف اٹھارہ رکوعوں اور 152 آیات پر مشتمل ہے اور نصف ِثانی 22 رکوعوں لیکن -134 آیات پر مشتمل ہے‘ وہی کیفیت سورۃ آل عمران میں بتمام و کمال ملتی ہے۔  سورئہ آل عمران کے بھی دو حصے ہیں‘ جو بہت مساوی ہیں۔  اس کے کل 20 رکوع ہیں 10 رکوع نصف ِاوّل میں ہیں اور 10 رکوع ہی نصف ِثانی میں۔  پہلے دس رکوعوں میں 101 آیات اور دوسرے دس رکوعوں میں 99 آیات ہیں۔  یعنی صرف ایک آیت کا فرق ہے۔  پھر جیسے سورۃ البقرۃ میں نصف ِاول کے تین حصے ہیں ویسے ہی یہاں بھی نصف ِاول کے تین حصے ہیں‘ لیکن یہاں تقسیم رکوعوں کے اعتبار سے نہیں بلکہ آیات کے اعتبار سے ہے۔  اس سورئہ مبارکہ کی ابتدائی 32 آیات اسی طرح تمہیدی کلام پر مشتمل ہیں جیسے سورۃ البقرۃ کے ابتدائی چار رکوع ہیں۔  سورۃ البقرۃ میں روئے سخن ابتدا ہی سے یہود کی طرف ہو گیا ہے‘ جبکہ یہاں روئے سخن ابتدا ہی سے نصاریٰ کی طرف ہے۔  

            ابتدائی 32 آیات کے بعد 31 آیات میں خاص طور پر نصاریٰ سے براہِ راست خطاب ہے۔  حضرت عیسیٰ کی ولادت کن حالات میں ہوئی‘ اُن کا مقام اور مرتبہ کیا تھا‘ ان کی اصل حیثیت کیا تھی‘ اور پھر یہ کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ‘اِس حصے میں یہ مضامین شامل ہیں۔  اس سورئہ مبارکہ کا اکثر و بیشتر ّحصہ 3 ہجری میں غزوئہ اُحد کے بعد نازل ہوا ہے‘ لیکن 31 آیات پر مشتمل یہ حصہ 9 ہجری میں نازل ہوا۔  «نجران» عرب کے جنوب میں یمن کی جانب ایک بستی تھی اور وہاں عیسائی آباد تھے۔  وہاں کے عیسائیوں کے سرداراور پادری کوئی ستر ّآدمیوں کا ایک وفد لے کر رسول اللہ  کی خدمت میں یہ بات سمجھنے سمجھانے کے لیے کہ آپ کس بات کی دعوت دے رہے ہیں‘ مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور وہ لوگ کئی دن وہاں مقیم رہے۔  انہوں نے بات پوری طرح سمجھ بھی لی اور خاموش بھی ہو گئے‘ لیکن پھر بھی بات نہیں مانی تو آنحضور  نے انہیں مباہلے کی دعوت دی‘ لیکن وہ اس چیلنج کو قبول کیے بغیر وہاں سے چلے گئے۔  انہوں نے رسول اللہ  کی دعوت کی شدت کے ساتھ تردید نہیں کی اور اسے قبو ل بھی نہیں کیا۔  سورئہ آل عمران کی یہ 31 آیات نجران کے عیسائیوں سے خطاب کے طور پر نازل ہوئیں۔  سورۃ البقرۃ کے بارے میں ایک بات بیان ہونے سے رہ گئی تھی کہ اس کے رکوع 38 کی آیات جن میں سود سے متعلق آخری احکام ہیں ‘ یہ بھی تقریباً ۹ہجری میں نازل ہوئی ہیں۔  گویا مشابہت کا یہ پہلو بھی دونوں سورتوں میں موجود ہے۔  سورۃ البقرۃ کا اکثر و بیشتر حصہ ّاگرچہ غزوئہ بدر سے قبل نازل ہوا‘ لیکن اس کی کچھ آیات ۹ھ میں نازل ہوئیں۔  اسی طرح سورئہ آل عمران کا اکثر و بیشتر حصہ اگرچہ غزوئہ اُحد کے بعد ۳ھ میں نازل ہوا ‘ لیکن نجران کے عیسائیوں سے خطاب کے ضمن میں آیات ۹ھ میں نازل ہوئیں۔  پھر جیسے سورۃ البقرۃ کے نصف ِاول کے آخری حصے (رکوع 18،17،16،15) میں حضرت ابراہیم اور خانہ کعبہ کا ذکر تھا اس طرح سے یہ بات آپ کو یہاں بھی ملے گی ۔  یہاں بھی اہل ِکتاب کو اسی انداز میں دعوت دی گئی ہے جیسے سورۃ البقرۃ کے 16 ویں رکوع میں دی گئی ہے۔  سورئہ آل عمران کے نصف ِاوّل کا یہ تیسرا حصہ 38 آیات پر مشتمل ہے ‘ جو بہت اہم اور جامع آیات ہیں۔  

            سورۃ البقرۃ اور سورئہ آل عمران دونوں کے نصف ِثانی کا آغاز «یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا» کے الفاظ سے ہوتا ہے۔  جیسے سورۃ البقرۃ کے انیسویں رکوع سے نصف ِثانی کا آغاز ہوتا ہے:  یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ   اسی طرح سورئہ آل عمران کے گیارہویں رکوع سے اس کے نصف ِثانی کا آغاز ہوتا ہے:  یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ.  سورئہ آل عمران کا نصف ثانی دس رکوعوں پر مشتمل ہے اور ان کی تقسیم عمودی ہے‘ اُفقی نہیں ہے۔  پہلے دو رکوعوں میں خطاب زیادہ تر مسلمانوں سے ہے‘ پھر اگرچہ روئے سخن اہل ِکتاب کی طرف بھی ہے۔  اس کے بعد مسلسل چھ رکوع غزوئہ اُحد کے حالات پر مشتمل ہیں۔  یعنی اس ضمن میں جو مسائل سامنے آئے ان پر تبصرہ ‘ مسلمانوں سے جو غلطیاں ہوئیں ان پر گرفت اور آئندہ کے لیے ہدایات ۔  یہ تقریباً 60 آیات ہیں جو چھ رکوعوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔  یہ گویا «غزوئہ اُحد» کے عنوان سے قرآن مجید کا ایک مستقل باب (chapter) ہے۔  لیکن قرآن میں اس طرح سے ابواب نہیں بنائے گئے ہیں‘ بلکہ اس کی سورتیں ہیں۔  جیساکہ ابتدا میں «تعارفِ قرآن» کے ضمن میں عرض کیا جا چکا ہے‘ قرآن خطباتِ الٰہیہ کا مجموعہ ہے۔  ایک خطبہ نازل ہو رہا ہے اور اس کے اندر مختلف مضامین بیان ہو رہے ہیں‘ لیکن ان میں ایک ربط اور ترتیب ہے۔  اب تک اس ربط اور ترتیب پر توجہ کم ہوئی ہے‘ لیکن اِس دور میں قرآن حکیم کے علم و معرفت کا یہ پہلو زیادہ نمایاں ہوا ہے کہ اس میں بڑا نظم ہے‘ اس کے اندر تنظیم ہے ‘ اس میں آیات کا آپس میں ربط ہے‘ سورتوں کا سورتوں سے ربط ہے۔  یہ ایسے ہی بے ربط اور الل ٹپ کلام نہیں ہے۔

            اس سورئہ مبارکہ کے آخری دو رکوع بہت اہم ہیں۔  ان میں سے بھی آخری رکوع تو بہت ہی جامع ہے۔  اس میں وہ عظیم دعا بھی آئی ہے جس کا ذکر میں نے ابھی کیا‘ اور فلسفۂ ایمان کے بارے میں اہم ترین بحث بھی اس مقام پر آئی ہے۔  اور اس سے پہلے کا رکوع یعنی انیسواں رکوع بھی بڑے جامع مضامین پر مشتمل ہے اور اس میں در حقیقت پوری سورئہ مبارکہ کے مضامین کو sum-up کیا گیا ہے۔  

            ان دونوں سورتوں کے مابین نسبت ِزوجیت کے حوالے سے آپ دیکھیں گے کہ بعض مقامات پر تو الفاظ بھی وہی آ رہے ہیں‘ وہی انداز ہے۔  جیسے سورۃ البقرۃ کی آیت: 136 میں فرمایا گیا: «(اے مسلمانو!) تم کہو ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور جو کچھ ہم پر نازل کیا گیا اور جو کچھ ابراہیم   اور اسماعیل   اور اسحاق   اور یعقوب  اور اولادِ یعقوب پر نازل کیا گیا…» ۔  بالکل یہی مضمون سورئہ آل عمران کی آیت: 84 میں آیا ہے۔  حضرت ابراہیم کا ذکر بھی دونوں سورتوں میں ملتا ہے۔  یہود کے بارے میں  ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّـۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ…    والی آیت سورئہ آل عمران میں بھی ہے‘ ذرا ترتیب کا فرق ہے۔ [قرآن مجید میں ایسے مقامات «متشابہ» کہلاتے ہیں اور یہ ُحفاظ ّکے لیے مشکل ترین مقام ہوتے ہیں کہ تیزی اور روانی میں وہ اس سے مشابہ دوسرے مقام پر منتقل ہو جاتے ہیں ۔] ان دونوں سورتوں کے مضامین کے اندر آپ کو اتنی گہری مناسبت نظر آئے گی جس کو میں نے زوجیت سے تشبیہہ دی ہے۔  ظاہر بات ہے کہ ہر حیوان کا جوڑا جو ہوتا ہے وہ تقریباً نوے فیصد تو ایک دوسرے سے مشابہ ہوتا ہے لیکن اس میں کوئی دس فیصد کا فرق بھی ہوتا ہے‘ اور وہ فرق بھی ایسا ہوتا ہے کہ دونوں کے جمع ہونے سے کسی مقصد کی تکمیل ہو رہی ہوتی ہے۔  جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ‘ مرد اور عورت ایک دوسرے سے مشابہ ہیں‘ لیکن جنس کے اعتبار سے مرد اور عورت کے جسم میں فرق ہے۔  البتہ دونوں کے ملاپ سے مقصد ِتناسل یعنی پیدائش ِاولاد اور افزائش ِنسل حاصل ہو رہا ہے‘ جو یک طرفہ طور پر حاصل نہیں ہو سکتا۔  یہ نسبت ِزوجیت قرآن مجید کی سورتوں میں اکثرو بیشتر بتمام و کمال موجود ہے۔  البتہ اس ضمن میں گہرے تدبر کی ضرورت ہے۔  قرآن میں غور و فکر کیا جائے‘ سوچ بچار کیا جائے تو پھر اس نظم قرآن کے حوالے سے اضافی معانی‘ اضافی علم‘ اضافی معرفت اور اضافی حکمت کے خزانے کھلتے ہیں۔  میں سورۃ البقرۃ کی تمہید میں یہ بتا چکا ہوں کہ نبی اکرم  نے ان دونوں سورتوں کو «الزَّہْرَاوَین» کا نام دیا ہے ‘ یعنی دو نہایت تابناک اور روشن سورتیں۔  جیسے قرآن مجید کی آخری دو سورتوں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کو «المُعَوَّذَتَـیْن» کا نام دیا گیا ہے اسی طرح قرآن حکیم کے آغاز میں وارد ان دونوں سورتوں کو «الزَّہْرَاوَین» کا نام دیا گیا ہے۔   

آیت 1:     الٓــــمّٓ :  «ا ۔  ل ۔  م۔ » 

            یہ حروفِ مقطعات ہیں جن کے بارے میں اجمالی گفتگو ہم سورۃ البقرۃ کے آغاز میں کر چکے ہیں۔ 

UP
X
<>