May 8, 2024

قرآن کریم > القصص >sorah 28 ayat 6

وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الأَرْضِ وَنُرِي فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَ 

اور اُنہیں زمین میں اقتدار عطا کریں ، اور فرعون، ہامان اور اُن کے لشکروں کو وہی کچھ دکھا دیں جس سے بچاؤ کی وہ تدبیریں کر رہے تھے

آیت ۶    وَنُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ: ’’اور ہم تمکن عطا کریں ان کو زمین میں‘‘

      ہم نے فیصلہ کیا کہ دنیا میں ہم بنی اسرائیل کو حکومت، طاقت اور سربلندی عطا کریں گے۔

      وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا مِنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَحْذَرُوْنَ: ’’اور ہم دکھا دیں فرعون، ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ کچھ جس سے وہ ڈرتے تھے۔ ‘‘

      ہامان فرعون کا وزیر تھا۔ ان لوگوں کو بنی اسرائیل کی طرف سے کیا خطرہ تھا؟ اس کے بارے میں دو توجیہات ملتی ہیں۔ ان میں سے جو توجیہہ ہماری تفسیری روایات میں بہت تکرار سے بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا جس سے اسے یہ اشارہ ملا کہ اسرائیلیوں کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو اسے اور اس کی سلطنت کو ختم کر دے گا۔ چنانچہ اس نے اسرائیلیوں کے ہاں پیدا ہونے والے ہر لڑکے کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور پھر اُس نے اپنے اس فیصلے پر سختی سے عمل درآمد بھی کروایا۔ یہ روایت تلمود میں بیان ہوئی ہے (اور تلمود سے ہی ہماری تفسیری روایات میں آئی ہے) لیکن نہ تو اس کا ذکر تورات میں کہیں ملتا ہے اور نہ ہی قرآن میں ایسا کوئی اشارہ موجود ہے۔ (البتہ اس سے ملتے جلتے ایک خواب کا ذکر انجیل میں ضرور ہے جو حضرت مسیح کی پیدائش کے زمانے میں متعلقہ علاقے کے یہودی بادشاہ نے دیکھا تھا اور اس خواب کے بعد وہ بادشاہ آپ کی جان کے درپے ہو گیا تھا۔)

      اس سلسلے میں دوسری توجیہہ البتہ منطقی اور عقلی نوعیت کی ہے اور وہ یہ کہ فرعون اور اس کے مشیروں کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ بنی اسرائیل کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اگر ان کی تعداد میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو بہت جلد یہ لوگ ان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں اور اسی خدشے کے پیش نظر انہوں نے اسرائیلیوں کی نرینہ اولاد کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ بالکل اسی نوعیت کی ایک سوچ ماضی قریب میں ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے خلاف بھی پیدا ہوئی تھی، جب ہندوؤں کو بھی بالکل ایسا ہی اندیشہ لاحق ہوا کہ مسلمانوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس طرح یہ لوگ مستقبل میں ان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں ۔ چنانچہ اسی اندیشے کے تحت اندرا گاندھی کے دورِ حکومت میں مسلمانوں کی جبری نس بندی کے لیے طرح طرح کے حربے آزمائے گئے۔ اور پھر اسی کے ردِ عمل کے طور پر مسلمانوں نے انتخابی معرکے میں کانگريس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور یوں اندرا گاندھی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔

      بہر حال اس حوالے سے ان دونوں توجیہات کا اپنی اپنی جگہ پر درست ہونے کا امکان بھی ہے۔ یعنی ممکن ہے فرعون اسرائیلیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بھی خائف ہو اور اس نے ایسا کوئی خواب بھی دیکھا ہو جس سے اسے اپنا اقتدار ڈولتا ہوا محسوس ہوا ہو۔ واللہ اعلم!

UP
X
<>