April 19, 2024

قرآن کریم > الكهف >surah 18 ayat 9

أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا

کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ غار اور رقیم والے لوگ ہماری نشانیوں میں سے کچھ (زیادہ) عجیب چیز تھے؟

 آیت ۹:   اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا: «کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور رقیم (تختی) والے اصحاب ہماری بہت عجیب نشانیوں میں سے تھے؟»

            اب اصحاب ِکہف کے متعلق اس سوال کے جواب کا آغاز ہو رہا ہے جو یہود مدینہ نے قریش مکہ کے ذریعے حضور سے پوچھا تھا۔ کہف کے معنی غار کے ہیں اور رقیم سے مراد وہ تختی ہے جس پر اصحاب کہف کے حالات لکھ کر اسے غار کے دہانے پر لگا دیا گیا تھا۔ اس نسبت سے انہیں اصحاب کہف بھی کہا جاتا ہے اور اصحاب الرقیم بھی۔ مراد یہ ہے کہ تم لوگ شاید اصحاب کہف کے واقعہ کو ایک بہت غیر معمولی واقعہ اور ہماری ایک بڑی عجیب نشانی سمجھتے ہو، مگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری تخلیق اور صناعی میں تو اس سے بھی بڑے بڑے عجائبات موجود ہیں۔

            اس قصے کے بارے میں اب تک جو ٹھوس حقائق ہمارے سامنے آئے ہیں اُن کا خلاصہ یہ ہے: حضرت مسیح کی فلسطین میں بعثت کے وقت بظاہر یہاں ایک یہودی بادشاہ کی حکمرانی تھی مگر اس بادشاہ کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہ تھی اور عملی طور پر یہ پورا علاقہ رومن ایمپائر ہی کا حصہ تھا۔ رومی حکمران مذہباً بت پرست تھے جبکہ فلسطین کے مقامی باشندے اہل کتاب (یہودی) تھے۔ حضرت مسیح کے رفع سماوی کا واقعہ ۳۰ اور ۳۳ عیسوی کے لگ بھگ پیش آیا۔ اس کے بعد یہودیوں کی ایک بغاوت کے جواب میں رومی جنرل ٹائیٹس نے ۷۰ عیسوی میں یروشلم پر حملہ کر کے اس شہر کو بالکل تباہ و برباد کر دیا، ہیکل سلیمانی مسمار کر دیا گیا، یہودیوں کا قتل عام ہوا اور جو یہودی قتل ہونے سے بچ گئے انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔ مقامی عیسائیوں کو اگرچہ علاقے سے بے دخل تو نہ کیا گیا مگر حضرت عیسیٰ کے پیروکار اور موحد ہونے کی وجہ سے انہیں رومیوں کی طرف سے اکثر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اسی حوالے سے رومی بادشاہ دقیانوس (Decius) کے دربار میں چند راسخ العقیدہ موحد نوجوانوں کی پیشی ہوئی۔ بادشاہ کی طرف سے ان نوجوانوں پر واضح کیا گیا کہ وہ اپنے عقائد کو چھوڑ کر بت پرستی اختیار کر لیں ورنہ انہیں سولی پر چڑھا دیا جائے گا۔ بادشاہ کی طرف سے انہیں اس فیصلے کے لیے مناسب مہلت دی گئی۔ اسی مہلت کے دوران انہوں نے شہر سے نکل کر کسی غار میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ جب یہ لوگ غار میں پناہ گزیں ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان پر ایسی نیند طاری کر دی کہ وہ تقریباً تین سو سال تک سوتے رہے۔ (سورۃ البقرۃ آیت: ۲۵۹ میں بھی اسی نوعیت کے ایک واقعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عزیر کو ان کی موت کے سو سال بعد زندہ کر دیا گیا) اوران کی نیند کے دوران ان کی کروٹیں بدلنے کا بھی باقاعدہ اہتمام رہا۔ جس غار میں اصحاب ِکہف سو رہے تھے وہ ایسی جگہ پر واقع تھی جہاں لوگوں کا آنا جانا بالکل نہیں تھا۔ اس غار کا دہانہ شمال کی جانب تھا جس کی وجہ سے اس کے اندر روشنی منعکس ہو کر تو آتی تھی، لیکن براہِ راست روشنی یا دھوپ نہیں آتی تھی۔ اس طرح کے غاروں کا ایک سلسلہ افسس شہر (موجودہ ترکی) کے علاقے میں پایا جاتا ہے جبکہ ہندوستان (ایجنٹا) میں بھی ایسے غار موجود ہیں۔

            بعد ازاں قسطنطین (Constantine) نامی فرمانروا نے عیسائیت قبول کر لی اور اس کی وجہ سے پوری رومن ایمپائر بھی عیسائی ہو گئی۔ پھر ۴۰۰عیسوی کے لگ بھگ Theodosius کے عہد حکومت میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو جگایا۔ جاگنے کے بعد انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو چاندی کا ایک سکہ دے کر کھانا لینے کے لیے شہر بھیجا اور ساتھ ہدایت کی کہ وہ محتاط رہے، ایسا نہ ہو ان کے غار میں چھپنے کی خبر بادشاہ تک پہنچ جائے۔ (وہ اپنی نیند کو معمول کی نیند سمجھ رہے تھے اور ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ تین سو سال تک سوئے رہے تھے۔) بہرحال کھانا لانے کے لیے جانے والا ان کا ساتھی اپنی تین سو سال پرانی وضع قطع اور کرنسی کی وجہ سے پکڑا گیا اور یوں ان کے بارے میں تمام معلومات لوگوں تک پہنچ گئیں۔ جب لوگوں کو حقیقت حال کا علم ہوا تو ہم مذہب ہونے کی وجہ سے عیسائی آبادی کی طرف سے ان کی بہت عزت افزائی کی گئی۔ اس کے بعد وہ لوگ غار میں پھر سے سو گئے یا اللہ تعالیٰ نے ان پر موت طاری کر دی۔ ان لوگوں کی طبعی موت کے بعد غار کے دہانے کو بند کر دیا گیا اور ایک تختی پر ان لوگوں کا احوال لکھ کر اسے اس جگہ پر نصب کر دیا گیا۔ اصحابِ کہف کا یہ قصہ گبن کی کتاب The Decline and fall of Roman Empire میں بھی Seven Sleepers کے عنوان سے موجود ہے۔ اس قصے کا ذکر چونکہ رومن لٹریچر میں تھا اور یہودی اِن تمام تفصیلات سے آگاہ تھے، اس لیے انہوں نے یہ سوال حضور سے امتحاناً پوچھ بھیجا تھا۔ 

UP
X
<>