May 4, 2024

قرآن کریم > الكهف >surah 18 ayat 104

اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا 

یہ وہ لوگ ہیں کہ دُنیوی زندگی میں ان کی ساری دوڑ دھوپ سیدھے راستے سے بھٹکی رہی، اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔‘‘

 آیت ۱۰۴:   اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا:  «وہ لوگ جن کی سعی و جہد ُدنیا ہی کی زندگی میں گم ہو کر رہ گئی»

            ایسے لوگ جنہیں آخرت مطلوب ہی نہیں، ان کی ساری تگ و دو اور سوچ بچار دنیا کمانے کے لیے ہے۔ آخرت کے لیے انہوں نے نہ تو کبھی کوئی منصوبہ بندی کی اور نہ ہی کوئی محنت۔ بس برائے نام اور موروثی مسلمانی کا بھرم رکھنے کے لیے کبھی کوئی نیک کام کر لیا، کبھی نماز بھی پڑھ لی اور کبھی روزہ بھی رکھ لیا۔ مگر اللہ کو اصل میں اُن سے مقصود و مطلوب کیا ہے ؟اس بارے میں انہوں نے کبھی سنجیدگی سے سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ ایسے لوگوں کو ان کی محنت کا صلہ حسب مشیت ِالٰہی دنیا ہی میں مل جاتا ہے، جبکہ آخرت میں ان کے لیے سوائے جہنم کے اور کچھ نہیں۔ اس مضمون کا ذروۂ سنام سوره بنی اسرائیل کی یہ آیات ہیں :    مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہُ فِیْہَا مَا نَشَآئُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہُ جَہَنَّمَ یَصْلٰٹہَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا  وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَّشْکُوْرًا.   «جو کوئی طلب گار بنتا ہے جلدی والی (دنیا) کاتوہم اس کو جلدی دے دیتے ہیں اس میں جو کچھ ہم چاہتے ہیں، جس کے لیے چاہتے ہیں، پھر ہم مقرر کر دیتے ہیں اس کے لیے جہنم، وہ داخل ہو گا اس میں ملامت زدہ، دھتکارا ہوا۔ اور جو کوئی آخرت کا طلبگارہو، اور کوشش کرے اس کے لیے اس کی سی کوشش اور وہ مؤمن بھی ہو، تو وہی لوگ ہوں گے جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی»۔ چنانچہ نجاتِ اخروی کا امیدوار بننے کے لیے ہر بندۂ مسلمان کو واضح طور پر اپنا راستہ متعین کرنا ہوگا کہ وہ طالب دنیا ہے یا طالب آخرت؟ جہاں تک دُنیا میں رہتے ہوئے ضروریاتِ زندگی کا تعلق ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک و بد سب کی پوری ہو رہی ہیں :    کُلاًّ نُّمِدُّ ہٰٓؤُلآَئِ وہٰٓؤُلآَئِ مِنْ عَطَآئِ رَبِّکَط وَمَا کَانَ عَطَآئُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا:   (بنی اسرائیل) «ہم سب کو مدد پہنچائے جا رہے ہیں، ان کو بھی اور ان کو بھی، آپ کے رب کی عطا سے، اور آپ کے رب کی عطا رُکی ہوئی نہیں ہے»۔ لہٰذا انسان کو اپنی ضروریات زندگی کے حصول کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ پر توکل رکھنا چاہیے۔ اُس نے انسان کو دنیا میں زندہ رکھنا ہے تو وہ اس کے کھانے پینے کا بندو بست بھی کرے گا:    وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ:   (الطلاق:۳) «وہ اس کو وہا ں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا»۔ چنانچہ ایک بنده مؤمن کو چاہیے کہ فکر ِدنیا سے بے نیاز ہو کر آخرت کو اپنا مطلوب و مقصود بنائے، اور ان لوگوں کے راستے پر نہ چلے جنہوں نے سرا سر گھاٹے کا سودا کیاہے، جن کی ساری محنت اور تگ و دو دنیا کی زندگی ہی میں گم ہو کر رہ گئی ہے:

               وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا:   «اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔»

            ایسے لوگ اپنے کاروبار کی ترقی، جائیدادوں میں اضافے اور دیگر مادی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ ان کی محنتیں روز بروز نتیجہ خیز اور کوششیں بار آور ہو رہی ہیں۔ 

UP
X
<>