April 19, 2024

قرآن کریم > النحل >surah 16 ayat 2

يُنَزِّلُ الْمَلآئِكَةَ بِالْرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُواْ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنَاْ فَاتَّقُونِ 

وہ اپنے حکم سے فرشتوں کو اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اِس زندگی بخشنے والی وحی کے ساتھ اُتارتا ہے کہ : ’’ لوگوں کو آگاہ کردو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو، (کسی اور سے نہیں‘‘)

 آیت ۲:  یُنَزِّلُ الْمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَ نَّہ لآَ اِلٰہَ اِلآَّ اَنَا فَاتَّقُوْنِ:  «وہ اُتارتا ہے فرشتوں کو اپنے امر کی روح کے ساتھ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، کہ خبردار کر دو (میرے بندوں کو ) کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے پس تم میرا ہی تقویٰ اختیار کرو۔»

            بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہ:  سے مراد اللہ کی وحی ہے۔ یعنی حضرت محمد کو اللہ نے اپنی وحی کے لیے چن لیا اور آپ کی طرف حضرت جبرائیل وحی لے کر آئے۔ یہاں پر لفظ «امر» کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ سورۃ الاعراف کی (آیت: ۵۴) میں فرمایا گیا:  اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ.  «آگاہ ہوجاؤ، اُسی کے لیے خلق ہے اور اُسی کے لیے امر»۔ یعنی عالم ِخلق اور عالم امر دو الگ الگ عالم ہیں۔ عالم امر کا معاملہ یہ ہے کہ اُس میں وقت کا عامل بالکل کارفرما نہیں۔ اس عالم میں کسی کام کے کرنے یا کوئی واقعہ وقوع پذیر ہونے میں وقت درکار نہیں ہوتا۔ بس اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے اور اس کے «کُنْ» فرمانے سے وہ کام ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ سوره یٰـسٓ میں فرمایا گیا:  اِنَّمَآ اَمْرُہٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّــقُوْلَ لَہ کُنْ فَـیَکُوْنُ.  «اُس کا امر تو یہی ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو بس یہی ہوتا کہ وہ اسے کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔»

            اس کے برعکس عالم خلق میں کسی کام کے پایہ تکمیل تک پہنچنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ جیسے قرآن میں متعدد بار فرمایا گیا کہ اللہ نے زمین و آسمان چھ دنوں میں تخلیق کیے۔ اسی طرح دنیا کا سارا نظام عالم خلق کے اصولوں پر چل رہا ہے۔ مثلاً آم کی گٹھلی سے کونپلیں پھوٹتی ہیں، پھر بڑھتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں وقت درکار ہوتا ہے۔

            یہاں پر روح کے ذکر کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ روح کا تعلق عالم ِامر سے ہے۔ عالم امر کی صرف تین چیزیں ہی ہمارے علم میں ہیں۔ ملائکہ، روح اور وحی۔ قرآن میں ملائکہ کو بھی روح کہا گیا ہے۔ جیسے حضرت جبرائیل کے لیے روح القدس اور روح الامین کے الفاظ آئے ہیں۔ سورۃ الشعراء میں فرمایا گیا:  نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ.  جبکہ سورۃ البقرۃ کی (آیت ۸۷) میں ارشاد ہوا:  وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۔ اسی طرح قرآن میں وحی کو بھی روح کہا گیا ہے، اور یہ وحی نازل بھی روح پر ہوتی ہے۔ جب محمد رسول اللہ پر وحی نازل ہوتی تو آپ اس کا ادراک طبعی حواسِ خمسہ سے نہیں کرتے تھے، بلکہ وحی براہِ راست آپ کے قلب ِمبارک پر نازل ہوتی تھی۔ اس لیے کہ قلب ِمحمدی روحِ محمدی  کا مسکن تھا:  نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ.  (الشعراء)۔ چنانچہ وحی بھی روح ہے، اس کو لانے والے جبرائیل امین بھی روح ہیں اور اس کا نزول بھی روحِ محمدی  پر ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں جگر مراد آبادی کا یہ شعر ان کی کسی خاص کیفیت کا مظہر معلوم ہوتا ہے:

نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو

روح سنے   اور روح سنائے!

UP
X
<>