May 3, 2024

قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 10

قَالَ قَآئِلٌ مَّنْهُمْ لاَ تَقْتُلُواْ يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ 

انہی میں سے ایک کہنے والے نے کہا : ’’ یوسف کو قتل تونہ کرو، البتہ اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو اُسے کسی اندھے کنویں میں پھینک آؤ، تاکہ کوئی قافلہ اُسے اُٹھا کر لے جائے۔ ‘‘

 آیت ۱۰:  قَالَ قَآئِلٌ مِّنْہُمْ لاَ تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ:  « کہا ان میں سے ایک کہنے والے نے کہ یوسف کو قتل مت کرو»

            یہ شریف النفس انسان اُن کے سب سے بڑے بھائی تھے جنہوں نے یہ مشورہ دیا۔ ان کا نام یہودا تھا، اور انہی کے نام پر لفظ « یہودی» بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ تو اس سے پیچھا چھڑانے کا ہے، لہٰذا ضروری نہیں کہ قتل جیسا گناہ کر کے ہی یہ مقصد حاصل کیا جائے، اس کے لیے کوئی دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔

             وَاَلْقُوْہُ فِیْ غَیٰـبَتِ الْجُبِّ یَلْتَقِطْہُ بَعْضُ السَّیَّارَۃِ:  « اور ڈال آؤ اسے کسی باؤلی کے طاقچے میں، اٹھا لے جائے گا اس کو کوئی قافلہ»

            پرانے زمانے کے کنویں کی ایک خاص قسم کو باؤلی کہا جاتا تھا، اس کا منہ کھلا ہوتا تھا لیکن گہرائی میں یہ تدریجاً تنگ ہوتا جاتا تھا۔ پانی کی سطح کے قریب اس کی دیوار میں طاقچے سے بنائے جاتے تھے۔ اس طرح کی باؤلیاں پرانے زمانے میں قافلوں کے راستوں پر بنائی جاتی تھیں۔ چنانچہ اس مشورے پر عمل کی صورت میں قوی امکان تھا کہ کسی قافلے کا ادھر سے گزر ہو گا اورقافلے والے یوسف کو باؤلی سے نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ بڑے بھائی کے اس مشورے کا مقصد بظاہر یہ تھا کہ اس طرح کم از کم یوسف کی جان بچ جائے گی اور ہم بھی اس کے خون سے ہاتھ رنگنے کے جرم کے مرتکب نہیں ہوں گے۔

             اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ: « اگر تم کچھ کرنے ہی والے ہو۔»

            جب نو بھائی اس بات پر پوری طرح تل گئے کہ یوسف سے بہرحال چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو دسواں بھائی ان کو اس حرکت سے بالکل منع تو نہیں کر سکا، لیکن اس نے کوشش کی کہ کم از کم وہ لوگ یوسف کو قتل کرنے سے باز رہیں۔ 

UP
X
<>